مہینوں سے امریکہ کے انسداد دہشت گردی کے عہدہ داروں کی توجہ، غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں سے ہٹ کر امریکہ کے اندر ان افراد پر مرکوز ہو رہی ہے جو اپنے تشدد کے لیے نظریاتی فرق کو جواز کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
حکومت کی حالیہ دہشت گردی کی ایڈوائزری کے مطابق، سب سے زیادہ ممکنہ حملہ آور، ، اکیلے ہی کام کرتے ہیں یا ایسے چھوٹے گروہ ہیں جو عقائد اوروسیع ذاتی شکایات کے نتیجے میں’’مملکت کے لیے مستقل اور مہلک خطرہ‘‘ ہیں۔
لیکن ایک ایسے وقت میں جب مئی 2022 میں بڑے پیمانے پر فائرنگ جیسے حملے جس میں بفلو، نیویارک میں 10 سیاہ فام خریدار ہلاک ہوئے، شہ سرخیوں میں ہیں اور عہدہ داروں کی توجہ ان کی جانب ہے،انسداد دہشت گردی کے اایک علیٰ امریکی اہل کار نے خبردار کیا ہے کہ ایسے میں جہادی گروپ، جیسے القاعدہ اور اسلامک اسٹیٹ کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم سینٹر کی نیئر ایسٹ پالیسی کی ڈائریکٹر کرسٹین ابی زید نے منگل کو ایک تقریب میں کہا کہ ’’ہمیں اب بھی ان تنظیموں کی طرف سے لاحق خطرے کے بارے میں درحقیقت چوکنا رہنا ہوگا جو بیرون ملک مقیم ہیں اور یہاں امریکہ میں امریکیوں کے خلاف حملے کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے اسلامک اسٹیٹ گروپ کا، جسے آئی ایس یا داعش کے نام سے بھی جانا جاتا ہے،مخفف استعمال کرتے ہوئے کہا، ’’القاعدہ اور آئی ایس آئی ایس سے متاثر خطرہ اب بھی موجود ہے‘‘۔
اسلامک اسٹیٹ:
حالیہ عرصے میں آئی ایس خاص طور پر سخت متاثر ہوئی ہے، جو گزشتہ 12 مہینوں کے دوران اپنےدو امیروں سے محروم ہو چکی ہے— ابو ابراہیم الہاشمی القرشی گزشتہ فروری میں شمال مغربی شام میں امریکی اسپیشل فورسز کے ایک چھاپے کے دوران مارے گئے تھے،اور ابو الحسن الہاشمی القرش گزشتہ اکتوبر میں ایک آپریشنمیں ہلاک ہوئے تھے۔
ان دو ہلاکتوں کے درمیانی مہینوں میں، شام اور عراق میں امریکہ اور اس کی شراکت دار افواج کے ساتھ ساتھ ترکی جیسے اتحادیوں نے آئی ایس کے 10 سینئر رہنماؤں کو ہلاک یا گرفتار کر لیا۔
لیکن ایسا لگتا ہے کہ آئی ایس کے خلاف ان کامیابیوں نےتنظیم اور اس سے وابستہ افراد کے مجموعی جوش و خروش کو کم نہیں کیا ہے۔
ابی زید نے کہا، ’’آئی ایس آئی ایس دراصل ایک بہت ہی متحرک گروپ ہے جس کی قیادت عراق اور شام میں ہے۔ وہ نہ صرف اپنی علاقائی سالمیت بلکہ اپنی (بری)شہرت اور برینڈ کی توسیع اور مغرب کے خلاف حملوں میں دلچسپی رکھتا ہے‘‘۔
’’ہم افریقی براعظم میں’ آئی ایس آئی ایس ‘ کی توسیع کو دیکھ رہے ہیں۔ ہم افغانستان میں داعش خراسان کے عزائم دیکھتے ہیں جو اس(افغانستان) علاقے سے آگے بڑھ سکتے ہیں‘‘۔
تاہم کرسٹین ابی زید نے اس بارے میں کوئی اندازہ لگانے سے انکار کردیا کہ اس سے افغانستان سے باہر کے مفادات کو کس قدر جلدخطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
القاعدہ
القاعدہ کو بھی ایک حد تک شدید دھچکا لگ چکا ہے۔ اس میں سب سے زیادہ اہم اگست میں کابل میں امریکی ڈرون حملے میں اس کےدیرینہ رہنما ایمن الظواہری کی ہلاکت تھی۔
ابی زید نے کہا، ’’ظواہری اس نیٹ ورک کے لیے کشش کا مرکز تھے۔ وہ علامتی طور پر بھی اہم تھے لیکن اسٹریٹجک طور پر بھی تنظیم سے وابستہہ اداروں کے متنوع نیٹ ورک کے لیے اہم تھے‘‘۔
ایران
ابی زید نے کہا کہ آئی ایس اور القاعدہ کے علاوہ، ایران اور اس کی پراکسیز، جو پورے مشرق وسطیٰ اور یہاں تک کہ افغانستان میں بھی سرگرم ہیں، دہشت گرد حملے کرنے کی رضامندی میں پہلے سے زیادہ آمادہ ہیں۔
این سی ٹی سی کی ڈائریکٹر نے کہا، ’’میں بیرون ملک دہشت گردانہ حملے کرنے میں ایران کی دلچسپی کو سب سے حیران کن پیش رفت کے طور پر بیان کروں گی۔مجھے جو نظر آرہا ہے وہ ایک بہت ہی بے باک ایرانی خطرے کا نیٹ ورک ہے جو بین الاقوامی سطح پر اور خطے میں حملوں کے راستے تلاش کرنے کے لیے تیار ہے‘‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جب کہ لبنانی حزب اللہ جیسے کچھ ایرانی پراکسی، زیادہ آواز اٹھا رہے ہیں۔یہ صرف کسی ایک کی ’پراکسی جنگ‘ نہیں ہے۔
نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم سینٹر کی نیئر ایسٹ پالیسی کی ڈائریکٹر کرسٹین ابی زید نے امریکہ کے قومی سلامتی کے سابق مشیر سفیر جان بولٹن کو قتل کرنے کی ایرانی سازش کی جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ حقیقی تشویش کا باعث یہ ہے کہ ہمارے پاس اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ انہوں نے امریکہ کے اندر اپنے اس مفاد کے حصول کی کوشش کی۔
رپورٹ جیف سیلڈن، وائس آف امیریکہ