رسائی کے لنکس

الطاف حسین لندن پراپرٹی کیس ہار گئے؛ 'ایم کیو ایم کو امانت واپس مل گئی'


ستمبر 2020 کو متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما اور موجودہ وفاقی وزیر انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی سید امین الحق نےلندن کی ایک عدالت میں الطاف حسین سمیت سات افراد کو پارٹی کی جائیدادوں کے ٹرسٹ سے بے دخل کرنے کے لیے رجوع کیا۔

یہ دعویٰ لندن کی بزنس اینڈ پراپرٹی کورٹ آف انگلینڈ اینڈ ویلز میں برطانیہ کے ٹرسٹیز ایکٹ 1925 کے تحت دائر کیا گیا تھا جس میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ پارٹی کی لندن میں موجود چھ ملکیتوں کے ٹرسٹیز میں سے الطاف حسین سمیت سات ٹرسٹیز کے نام خارج کیے جائیں تاکہ ان جائیدادوں کا غلط استعمال روکا جاسکے۔

درخواست کے مطابق پارٹی پراپرٹی میں بعض کرائےپر بھی دی گئی تھیں اور ایک جائیداد فروخت بھی کردی گئی تھی۔ ایم کیو ایم پاکستان نے متحدہ کے بانی اور دیگر چھ افراد سے کرائے پر دی گئی جائیدادوں کا انتظام واپس لینے اور فروخت شدہ جائیداد کی رقم بھی حوالے کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

جن افراد کے خلاف یہ دعویٰ دائر کیا گیا ان میں سے اقبال حسین، طارق میر اور محمد انور نے مقدمہ نہیں لڑا اور ازخود ٹرسٹ کی رکنیت سے دست بردار ہوگئے ۔ تاہم بانی ایم کیو ایم الطاف حسین، قاسم علی رضا اور یورو پراپرٹی ڈیولپمنٹ نے مقدمہ لڑا۔

ایم کیو ایم پاکستان کی درخواست کی بنیاد یہ تھی کہ مدعا علیہ ٹرسٹی کے طور پر درکار حساب و کتاب کا ریکارڈ رکھنے اور حساب دینے میں ناکام رہے ہیں۔ اسی بنا پر یہ دعویٰ کیا تھا کہ مدعا علیہان ٹرسٹ کے اثاثوں کو ذاتی مقاصد اور غلط طریقے سے استعمال کررہے ہیں۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ اس دعوے کی بنیاد بانی ایم کیو ایم کی 22 اگست 2016 کی تقریر ہے جو انہوں ںے لندن سے کی تھی۔ اس تقریر کے نتیجے میں کراچی میں پرتشدد مظاہرے ہوئے تھے اور انتظامیہ کو مداخلت کرنا پڑی تھی۔ بعد ازاں اگلے ہی روز الطاف حسین نے عوامی سطح پر اپنے بیان پر معافی مانگی اور خود کو ایم کیو ایم سے علیحدہ کرنے کا اعلان کیا۔

عدالتی فیصلے کے مطابق تنازع یہیں سے شروع ہوتا ہے کہ کیا الطاف حسین کا یہ اعلان مستقل تھا یا عارضی؟

اس واقعے کے بعد ایم کیو ایم نے ستمبر 2016 میں اپنا نیا آئین تشکیل دیا تھا جس میں الطاف حسین کا ایم کیو ایم میں تمام کردار ختم کردیا گیا تھا اور ایم کیو ایم نے اپنا نام تبدیل کرکے ایم کیو ایم پاکستان رکھ دیا تھا۔ یہ ملک میں الیکشن ایکٹ کے تحت ایک رجسٹرڈ جماعت ہے جس نے انتخابی عمل میں بھی حصہ لیا ہے۔

دوسری جانب الطاف حسین کے وکلا کا مؤقف تھا کہ ایم کیو ایم 1987 سےرجسٹرڈ سیاسی جماعت تھی۔ لیکن اگست 2016 سے اس کی رجسٹریشن پاکستان میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ممنوع کردی گئی۔

انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ اگست 2016 کی تقریر کے بعد فوجی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں ایم کیو ایم پاکستان جلد بازی میں بنائی گئی تاکہ فوجی حکام کی سرپرستی اور تحفظ حاصل کیا جاسکے۔ اس کے علاوہ الیکشن کمیشن میں ایم کیو ایم کی جگہ ایم کیو ایم پاکستان کے نام سے رجسٹریشن غلط تھی۔

اس طرح ستمبر 2016 میں اس جماعت کے آئین کو بھی غلط طور پر تسلیم کرلیا گیا۔ اسی آئین کے تحت بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کو پارٹی نکالا گیا جب کہ اس سے قبل یہ ممکن نہیں تھا۔

البتہ سید امین الحق کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ ایم کیو ایم کے نئے آئین کے تحت پارٹی سے نہ صرف الطاف حسین بلکہ لندن میں موجود ایم کیو ایم کے تمام ارکان کو جماعت سے خارج کر دیاگیا تھا اور اب ان کا ایم کیو ایم سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کے باوجود وہ پارٹی کے اثاثوں کے ٹرسٹی بن کر ٹرسٹ کے قوانین کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔

عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد پیر کو جاری کردہ فیصلے میں قرار دیا کہدرحقیقت ایم کیو ایم پاکستان ہی اصل ایم کیو ایم ہے اور اس کے ارکان ہی ٹرسٹ سے فائدہ اٹھانے کے اہل ہیں۔

تاہم عدالت نے یہ بھی کہا کہ اگست 2016 کی الطاف حسین کی وہ متنازع تقریر جس پر الطاف حسین کو ایم کیو ایم سے نکال دیا تھا، کیا وہ قرار داد ٹھیک ہے یا نہیں؟ اس پر مزید سماعت ہونی چاہیے۔ لیکن اس دعوے کے کیس میں ایم کیو ایم کے آئینی معاملات دفاع نہیں بنتے ، لہٰذا اس بارے میں مزید سماعت غیر ضروری ہے۔

عدالت نے سات ملکیتوں پر ایم کیو ایم پاکستان کے دعوے کو درست تسلیم کیا ہے۔

اس فیصلے کے بعد الطاف حسین اور دیگر لندن میں واقع ایبے ویو مل ہل، 53 بروک فیلڈ ایونیو مل ہل، ون ہائی ویوز گارڈن ایج ویئر، فائیو ہائی ویوز گارڈ ایج ویئر، 185 وائٹ چرچ لین ایج ویئر، 221 وائٹ چرچ لین ایج ویئر اور فرسٹ فلو الزبتھ ہاؤس ایج ویئر کی جائیدادوں کے ٹرسٹری نہیں رہے۔

ان ملکیتوں میں سے بعض پر الطاف حسین خود رہائش پذیر ہیں جب کہ بعض ایم کیو ایم لندن کے دفاتر کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ ان میں سے بعض پراپرٹیز کرائے پر بھی دے رکھی ہیں۔ ان میں سے فروخت ہونےو الی ایک جائیداد پر ایم کیو ایم پاکستان کا دعویٰ قبول کرلیا گیا ہے۔ رپورٹس کے مطابق ان جائیدادوں کی مجموعی قیمت لگ بھگ ایک کروڑ پاؤنڈ ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما اسے اپنے حق کے لیے حاصل ہونے والی بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔

عدالتی فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے امین الحق کا کہنا تھا کہ وہ کئی برسوں سے ایم کیو ایم کے ساتھ ہیں۔ ان کے بقول یہ جائیدادیں پارٹی کی امانت ہیں جو انہیں واپس ملی ہیں اور ان جائیدادوں کو ان کی جماعت کے لاپتا اور فوت ہوجانے والے ساتھیوں کے خاندانوں کے لیےاستعمال کیا جائے گا۔

اس کے علاوہ ان کے بقول جائیدادوں کا ایک حصہ پارٹی کے مقتول بانی رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے خاندان کو بھی دیا جائے گا جو اس وقت برطانیہ ہی میں مقیم ہیں۔

ادھر الطاف حسین کے وکیل چوہدری محمد عاطف نے برطانوی عدالت کے فیصلے کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے خلاف اپیل دائر کی جائے گی اور اس سلسلے میں تیاریاں شروع کردی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اس فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں کیوں کہ انہیں یہ امید نہیں تھی کہ ایسا فیصلہ آ جائے گا۔

کچھ عرصے بعد اس دعوے کے دوسرے حصے کی سماعت بھی ہائی کورٹ میں شروع ہوگی جس میں اس بات کا فیصلہ کیا جائے گا کہ آیا ان اثاثوں سے کرائے اور فروخت سے حاصل ہونے والی رقم کا دعویٰ بھی درست ہے یا نہیں۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG