اسرائیل کی فوج بدھ کی علی الصباح غزہ کے سب سے بڑے طبی مرکز الشفا اسپتال میں داخل ہو گئی ہے جب کہ حماس کے زیرِ انتظام غزہ کے طبی حکام کا کہنا ہے کہ اسپتال میں کئی دھماکے بھی ہوئے ہیں۔
الشفا اسپتال میں داخل ہونے سے قبل اسرائیلی فوج نے حماس کے جنگجوؤں سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر اور آپریشن کی ضرورت کے مطابق اسرائیلی ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) الشفا اسپتال کے مخصوص حصوں میں حماس کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کر رہی ہیں۔
فوج نے مزید دعویٰ کیا کہ اس کے اہلکاروں میں طبی عملہ اور عربی بولنے والے اہلکار بھی شامل ہیں جنہیں اس طرح کے پیچیدہ اور حساس ماحول میں عام شہریوں کو نقصان پہنچائے بغیر کارروائی کی تربیت دی گئی ہے۔
اسرائیلی فورسز نے الشفا اسپتال میں جاری فوجی کارروائی سے متعلق مزید کوئی تفصیل جاری نہیں کی۔ البتہ یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اسرائیلی اہلکار کوشش کر رہے ہیں کہ عام شہریوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔
اسرائیل کی حکومت اور فوج مسلسل یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ الشفا اسپتال کے نیچے حماس کے جنگجوؤں کا ہیڈ کوارٹر ہے اور وہ غزہ کے طبی مرکز کو اپنے ہیڈ کوارٹر کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔
امریکہ نے بھی اسرائیل کے اس دعوے کو درست قرار دیا تھا کہ حماس اپنے جنگجوؤں کو بچانے کے لیے اسپتالوں اور طبی مراکز کو بطور ڈھال استعمال کر رہی ہے۔
دوسری جانب حماس اور اس کے زیرِ انتظام غزہ کا محکمۂ صحت کئی بار اس الزام کی تردید کر چکے ہیں۔
قطر کے نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ سے گفتگو میں غزہ میں حماس کے تحت محکمۂ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر منیر البرش کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فورسز نے الشفا اسپتال کے کمپلیکس کے مغربی حصے میں کارروائی کی ہے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق ڈاکٹر منیر البرش کے مطابق اسپتال میں کئی دھماکے ہوئے ہیں جن سے اٹھنے والا گرد و غبار ان حصوں میں بھی پہنچ گیا ہے جہاں وہ موجود ہیں۔
انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ اسپتال کے اندر بھی دھماکے ہوئے ہیں۔تاہم آزاد ذریعے سے الشفا اسپتال کی تازہ ترین صورتِ حال کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
حماس کا کہنا ہے کہ الشفا اسپتال میں لگ بھگ 650 مریض زیرِ علاج ہیں جب کہ سات ہزار بے گھر فلسطینیوں نے بھی اسپتال میں پناہ لی ہوئی ہے۔
نیتن یاہو کا امریکی صدر کو فون
الشفا اسپتال میں اسرائیلی فورسز کی کارروائی سے قبل اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کی امریکہ کے صدر جو بائیڈن سے ٹیلی فون پر تفصیلی گفتگو ہوئی تھی۔
وائٹ ہاؤس نے اس گفتگو کے حوالے سے بتایا تھا کہ دونوں رہنماؤں نے یرغمال بنائے گئے افراد کی بازیابی کے حوالے سے گفتگو کی تھی۔ اس میں الشفا اسپتال میں فوجی کارروائی کا معاملہ زیرِ بحث نہیں آیا تھا۔
وائٹ ہاؤس نے منگل کوایک بیان میں کہا ہے کہ اسپتالوں پر فضائی حملوں یا اس میں لڑائی کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔اسپتالوں میں بے گناہ افراد، مدد کے منتظر لوگ اور بیمار علاج کی غرض سے آتے ہیں وہ لڑائی کے درمیان پھنس سکتے ہیں۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق اسرائیل کی وزارتِ دفاع نے ہامی بھری ہے کہ وہ غزہ میں ایندھن کی کچھ شپمنٹس آنے کی اجازت دے رہی ہے اور یہ اجازت انسانی بنیادوں پر دی گئی ہے۔
سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ غزہ میں ایندھن آنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔
حالیہ دنوں میں غزہ سٹی اور شمالی غزہ کے کئی علاقوں پر اسرائیل کی فوج قابض ہوئی ہے۔ ان علاقوں میں عمارتوں پر اسرائیل کے پرچم لہرائے گئے ہیں جب کہ بعض مقامات پر فوجی یونٹس اپنے پرچم بھی لگا رہی ہیں۔
اسرائیل کے وزیرِ دفاع کا دعویٰ ہے کہ شمالی غزہ پر حماس کا کنٹرول ختم ہو چکا ہے جب کہ غزہ شہر میں اسرائیل کی فوج نے پیش رفت کی ہے۔
جنگ جاری رہنے کے حوالے سےاسرائِیلی وزیرِ دفاع کا کہنا تھا کہ "ہم مہینوں کا سوچ رہے ہیں، ایک دو دن کا نہیں۔"
اسرائیلی فورسز کا دعویٰ ہے کہ الشفا اسپتال کے اطراف میں اس نے متعدد سرکاری عمارتوں، اسکولوں اور رہائشی عمارتوں پر قبضہ کیا ہے جہاں سے انہیں اسلحہ بھی ملا ہے جب کہ اس دوران عسکریت پسندوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔
فوج کا کہنا ہے کہ اس نے غزہ کے قانون ساز ادارے کی عمارت، حماس کا پولیس ہیڈ کوارٹر اور حماس کے انٹیلی جنس ہیڈ کوارٹر پر قبضہ کر لیا ہے۔
خیال رہے کہ ان عمارتوں کی علامتی طور پر تو بہت زیادہ اہمیت ہے۔ لیکن جنگی حکمتِ عملی کے طور پر ان پر قبضہ کس قدر اہم ہو سکتا ہے یہ واضح نہیں ہے۔ کیوں کہ حماس کے جنگجو جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی زیرِ زمین چلے گئے تھے۔
منگل کو اسرائیل کی فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ غزہ میں بچوں کے اسپتال کے نیچے حماس نے ہتھیار ذخیرہ کیے ہوئے تھے جب کہ ایسے شواہد بھی ملے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ حماس نے یرغمال افراد کو بھی یہاں قید رکھا تھا۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینئل ہگاری کا کہنا تھا کہ اسرائیلی فوج کو غزہ کے الرنتیسی اسپتال کے تہہ خانے میں حماس کا کمانڈ سینٹر ملا ہے جہاں اسلحہ، گرینیڈ، خودکش جیکٹیں اور دیگر گولہ بارود رکھنے کا اسٹور بنایا ہوا تھا۔
واضح رہے کہ حماس کے سات اکتوبر کو اسرائیل کے جنوبی علاقوں پر زمین، فضا اور بحری راستوں سے غیر متوقع حملے میں اسرائیلی حکام کے مطابق لگ بھگ 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے۔حماس نے اس حملے کے دوران 230 سے زائد افراد کو یرغمال بنا لیا تھا جو اب بھی اس کی تحویل میں ہیں۔
حماس کے مطابق ان مغویوں میں سے بعض اسرائیل کے حملوں میں ہلاک بھی ہوئے ہیں۔
اسرائیل کی جوابی کارروائی کے طور پر غزہ پر مسلسل بمباری کے سبب حماس کے زیرِ انتظام غزہ کے طبی حکام کے مطابق 11 ہزار سے زیادہ فلسطینی مارے جا چکے ہیں جن میں ساڑھے چار ہزار بچے اور تین ہزار سے زائد خواتین شامل ہیں۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق اسرائیل کی الشفا اسپتال میں پیش قدمی کے بعد یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ بین الاقوامی قوانین کے تحت اس کارروائی کو کس طرح دیکھا جائے گا۔ کیوں کہ بین الاقوامی قانون کے تحت طبی مراکز کو تحفظ حاصل ہوتی ہے جب کہ اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کا دفتر کہہ چکا ہے کہ الشفا اسپتال میں ہزاروں بے گھر افراد پناہ لیے ہوئے ہیں۔
اسرائیلی کی فوج نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس نے غزہ کے حکام کو 12 گھنٹوں کی مہلت دی تھی تاکہ وہ الشفا اسپتال میں عسکری امور کو ختم کر دیں لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
انسانی حقوق کی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ کے اسرائیل اور فلسطین کے ڈائریکٹر عمر شیخ کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو اسپتال پر چھاپہ مارنے سے قبل عام شہریوں کو کسی محفوظ مقام پر منتقل کرنے کا موقع دینا چاہیے تھا اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں ایک پر امن راستہ بھی دینا چاہیے تھا تاکہ وہ اس مقام تک منتقل ہو سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ انتہائی گھمبیر صورتِ حال ہے کیوں کہ غزہ میں اسپتال اب ہزاروں بے گھر افراد کی پناہ گاہیں بھی ہیں۔
ادھر یونیسیف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل محصور علاقے کے ایک دورے کے بعد ایک بیان میں کہتی ہیں کہ غزہ کے دس لاکھ بچوں کے لیے "کہیں بھی محفوظ نہیں"۔ "تصادم کے فریق بچوں کے خلاف سنگین خلاف ورزیاں کر رہے ہیں۔ ان میں قتل، معذوری، اغوا، اسکولوں اور اسپتالوں پر حملے، اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رسائی سے انکار شامل ہیں - جس کی یونیسیف مذمت کرتا ہے،" انہوں نے کہا۔ "بہت سے بچے لاپتہ ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ وہ منہدم عمارتوں اور گھروں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں، یہ آبادی والے علاقوں میں دھماکہ خیز ہتھیاروں کے استعمال کا المناک نتیجہ ہے۔"
اس رپورٹ میں خبر رساں اداروں ایسوسی ایٹڈ پریس، رائٹرز اور اے ایف پی سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔