رسائی کے لنکس

پانچ برس بعد پاکستان واپس آنے والے اسحاق ڈار کے خلاف کیس ہے کیا؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان میں مسلم لیگ (ن) کی سربراہی میں قائم اتحادی حکومت کی طرف سے نامزد وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف نیب کے دائرکردہ ریفرنس میں دائمی وارنٹ گرفتاری معطل ہونے کے بعد اب ان کے خلاف مزید کوئی کیس نہیں ہے۔ ان کے وکلا کا کہنا ہے کہ وہ اس کیس کی سماعت سے پہلے ہی عدالت کے سامنے پیش ہو جائیں گے۔

اسحاق ڈار کے خلاف نیب کی طرف سے آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں ان کی عدم حاضری پر وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے۔

اسحاق ڈار کو لندن میں موجود سابق وزیرِ اعظم نواز شریف اور وزیرِ اعظم شہباز شریف کے درمیان اتوار کو ہونے والی ملاقات میں نیا وزیرِ خزانہ نامزد کیا گیا تھا، جس کے بعد موجودہ وفاقی وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ انہوں نے زبانی استعفیٰ دے دیا ہے۔ اب وطن واپس جا کر تحریری طور پر مستعفی ہو جائیں گے۔

اسحاق ڈار وزیرِ اعظم شہباز شریف کے ساتھ ہی برطانیہ سے پاکستان آ رہے ہی، جس کے بعد وہ نیب کی عدالت میں پیش ہو کر ضمانت حاصل کریں گے اور اس کے بعد سینیٹ کے رکن کے طور پر ممکنہ طور پر حلف اٹھا کر باقاعدہ وزارت کا حلف لیں گے۔

اسحاق ڈار کے خلاف ریفرنس ہے کیا؟

سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما کیس میں الزامات کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی حتمی رپورٹ میں کہا تھا کہ اسحاق ڈار کے اثاثوں میں بہت کم عرصے کے دوران 91 گنا اضافہ ہوا اور وہ 90 لاکھ روپے سے 83 کروڑ 10 لاکھ روپے تک جا پہنچے۔

اس رپورٹ کے بعد عدالتِ عظمیٰ نے 28 جولائی کو پاناما پیپرز کیس میں اپنا حتمی فیصلہ سناتے ہوئے نیب کو اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے حوالے سے ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کی تھی۔

نیب نے اسحاق ڈار کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا، جس کے دوران وزیرِ خزانہ کی آمدنی میں اضافے کے علاوہ فلیگ شپ انویسٹمنٹ، ہارٹ اسٹون پراپرٹیز، کیو ہولڈنگز، کیونٹ ایٹن پلیس، کیونٹ سولین لمیٹڈ، کیونٹ لمیٹڈ، فلیگ شپ سیکیورٹیز لمیٹڈ، کومبر انکارپوریشن اور کیپیٹل ایف زیڈ ای سمیت 16 اثاثہ جات کی تفتیش کی گئی۔

اس کے بعد ان کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے الزام میں احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کیا گیا۔

اسحاق ڈار کے خلاف دائر ریفرنس میں دفعہ 14 سی لگائی گئی ہے، یہ دفعہ آمدن سے زائد اثاثے رکھنے سے متعلق ہے، جس کی تصدیق ہونے کے بعد 14 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

ریفرنس دائر ہونے کے بعد احتساب عدالت نے اسحاق ڈار کو 19 ستمبر 2018 کو طلب کیا گیا تھا، تاہم عدالت میں پیش نہ ہونے پر ان کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے۔

بعدازاں وہ 25 ستمبر کو احتساب عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت میں 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرائے۔اسی سال 27 ستمبر 2018 کو نیب ریفرنسز کے سلسلے میں احتساب عدالت میں ہونے والی سماعت کے دوران فردِ جرم عائد کی گئی تھی، تاہم انہوں نے صحتِ جرم سے انکار کر دیا تھا۔

اسحاق ڈار ملک سے باہر کیسے گئے؟

اس بارے میں نیب کے سابق پراسیکیوٹر اور اسحاق ڈار کے خلاف نیب کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل عمران شفیق ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسحاق ڈار کے خلاف کیس ابھی شروع ہوا تھا اور پانچ گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے جاچکے تھے، جن پر اسحاق ڈار کے وکیل خواجہ حارث جرح کر رہے تھے۔

عمران خان کی معاشی غلطیوں کا ازالہ کریں گے: اسحاق ڈار
please wait

No media source currently available

0:00 0:14:22 0:00

ان کا کہنا تھا کہ اسحاق ڈار کو بیرونِ ملک جانے کی اجازت کسی عدالت نے نہیں دی تھی اور اپنی وزارت کے دوران وہ ایک سرکاری دورے پر تاجکستان گئے اور وہاں سے عمرہ ادائیگی کے لیے سعودی عرب چلے گئے۔ اس کے بعد وہیں سعودی عرب میں ایک دن واک کرتے ہوئے ان کو دل میں چبھن کا احساس ہوا، جس کے بعد وہ لندن چلے گئے اور اب تک وہیں مقیم ہیں۔

عمران شفیق نے کہا کہ ہم نے عدالت میں ان کی بیماری سے متعلق پوچھا تھا، جس کے جواب میں ان کے وکلا کی طرف سے بتایا گیا کہ ان کی ایکو کارڈیو گرام ہوئی ہے جب کہ ای سی جی سمیت مزید ٹیسٹ ہونے ہیں لیکن اس بارے میں مزید تفصیل نہیں بتائی گئی۔ جس پر میں نے کہا کہ ایکو کارڈیو گرام ہوچکی ہے اور ای سی جی دو منٹ کا کام ہے، جس پر جج نے ان کو سمن کیا اور بعد میں وارنٹ جاری کر دیے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے بعد ان کے وکلا نے ان کی غیر موجودگی میں ٹرائل چلانے کا کہا، جس پر ہائی کورٹ میں جواب دائر کیا کہ ایک شخص عدالتی مفرور ہے، اس کا کیس کیسے چلانے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ عدالت نے یہ درخواست مسترد کر دی اور پھر انہوں نے سپریم کورٹ میں درخواست دی، جو حالیہ دنوں میں لگی تھی البتہ انہوں نے یہ درخواست عدالت سے واپس لے لی ہے۔

جب اسحاق ڈار ملک سے گئے تو اس کے بعد ان کی حد تک کیس کی کارروائی روک دی گئی تھی ، اب ان کے واپس آنے کے بعد دوبارہ شروع ہوگی۔

اسحاق ڈار کو کیس میں نئے نیب قوانین سے فائدہ ہوگا؟

اس بارے میں سابق نیب پراسیکیوٹر عمران شفیق نے کہا کہ اسحاق ڈار پر نیب کا ریفرنس آمدن سے زائد اثاثوں کا ہے لیکن موجودہ دور میں نئے قوانین کے مطابق اس کیس کو چلایا جائے گا۔ ماضی کے قانون کے مطابق نیب کو صرف آمدن سے زائد اثاثے ثابت کرنے ہوتے تھے البتہ نئے قانون کے مطابق صرف آمدن سے زائد اثاثے نہیں بلکہ ان اثاثوں کے بننے میں کرپشن کو بھی ثابت کرنا ہوگا۔

مبصرین کے مطابق اس ریفرنس میں کرپشن کے حوالے سے کوئی الزام شامل نہیں ہے۔اس نئے قانون کے تناظر میں اسحاق ڈار کو فائدہ مل سکتا ہے۔

سابق نیب پراسیکیوٹر عمران شفیق نے کہا کہ اسحاق ڈار کے وارنٹ گرفتاری کبھی بھی چیئرمین نیب نے جاری نہیں کیے، وہ عدالتوں میں پیش ہو رہے تھے۔ دوران ٹرائل بیشتر سیاسی رہنماؤں کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ یہ چیئرمین نیب کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ کسی کو گرفتار کرنے کا کہیں۔اس معاملے میں عدالت نے غیر حاضری کی بنیاد پر ان کے وارنٹ جاری کیے تھے اور ابھی عدالت نے یہی حکم معطل کیا ہے۔

ان بقول اب واپسی پر ان کی گرفتاری کے امکانات کم ہیں، اگر چیئرمین نیب چاہیں تو ابھی بھی ان کے وارنٹ جاری ہو سکتے ہیں۔ عدالت نے دیکھنا ہے کہ ان کی غیرحاضری کی وجوہات درست ہیں یا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ قانون کی نظر سے اس ریفرنس کو دیکھنے کی صورت میں عدالت نیب کو یہ ریفرنس واپس بھجوا سکتی ہے کہ اگر ان کے خلاف کرپشن کے الزامات ہیں توانہیں ساتھ شامل کیا جائے اور دیکھا جائے کہ کیس بنتا بھی ہے یا نہیں۔ عدالت نے دیکھنا ہے کہ کیس میرٹ پر ہے یا نہیں۔

اسحاق ڈار کی جائیداد کا کیا بنا؟

اس ریفرنس میں عدالتی مفرور اور ان کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے بعد نیب نے عدالتوں میں ان کی جائیداد ضبط اور فروخت کرنے کے لیے درخواست دی تھی، جس کے بعد نیب نے ان کی لاہور میں واقعہ پراپرٹی کو قبضے میں لے لیا تھا۔

کیا یہ پراپرٹی بھی واپس ہوگی؟ اس پر عمران شفیق کا کہنا تھا کہ اسحاق ڈار اس بارے میں عدالت کو مطمئن کر سکتے ہیں کہ ان کی غیر حاضری طبی وجوہات یا کسی اور وجہ سے تھی، جس کی وجہ سے وہ وطن واپس نہیں آسکے۔ لہذا ان کی جائیداد کے حوالے سے جو احکامات دیے گئے ہیں، عدالت انہیں واپس لے سکتی ہے۔

اسحاق ڈار فرار کیوں ہوئے؟

اسحاق ڈار کے خلاف ستمبر 2017 میں ریفرنس قائم کیا گیا تھا اور اس کے بعد دو ماہ کے اندر ان کے خلاف فرد، جرم عائد کی گئی، جس کے بعد دسمبر 2017 میں اسحاق ڈار بیرون ملک روانہ ہوئے اور لگ بھگ پانچ برس کے بعد وطن واپس آ رہے ہیں۔

سینئر صحافی اور اس ریفرنس کو عدالتوں میں کور کرنے والے اویس یوسف زئی کہتے ہیں کہ اسحاق ڈار ایک ٹیکنو کریٹ تھے اور ان کی باڈی لینگویج بہت زیادہ پریشان کن نظر آتی تھی۔ عدالت میں جب بھی وہ آتے تو خاصے پریشان ہوتے تھے اور ایک دو مرتبہ انہوں نے کمرۂ عدالت میں ہی نماز ادا کی۔

اویس یوسف زئی کا کہنا تھا کہ اسحاق ڈار سیاسی جماعت سے تعلق تو رکھتے تھے لیکن بنیادی طور پر وہ سیاسی ورکر نہیں تھے، نواز شریف نے اپنے خلاف ریفرنسز میں 100سے زائد بار پیشی پر حاضری دی اور جب انہیں سزا سنائی جانی ہوتی تھی، تو سزا کے امکان کے باوجود وہ پاکستان آئے اور یہاں آکر جیل بھی گئے۔ وہ ایک سیاسی اور عوامی رہنما تھے جب کہ اسحاق ڈار کے لیے جیل جانا شاید آسان نہ تھا۔ اسی وجہ سےوہ اس تمام صورتِ حال کا سامنا کرنے کے بجائے لندن چلے گئے۔

ایک واقعہ سناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک دن خواجہ حارث کی عدم موجودگی پر میں نے کہا کہ انہیں جیل بھجوا دیں۔اس پر اسحاق ڈار کے ماتھے پر پسینہ نظر آیا۔ عدالت نے انہیں جیل تو نہ بھجوایا، البتہ اگلی پیشی پر اسحاق ڈار خواجہ حارث کے ساتھ ہی عدالت میں آئے۔ ایسی صورتِ حال میں ان کا بیرونِ ملک جانا کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔

کیس کا موجودہ اسٹیٹس کیا ہے؟

اس بارے میں اسحاق ڈار کے وکیل قاضی مصباح نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسحاق ڈار کے خلاف اس وقت صرف ایک نیب ریفرنس زیِرسماعت ہے، جو آمدن سے زائد اثاثوں کا ہے۔

قاضی مصباح نے کہا کہ اس کیس کی سماعت کے دوران نیب کی طرف سے بتایا گیا کہ اسحاق ڈار کے خلاف یہ ریفرنس سپریم کورٹ کی ہدایت پر دائر کیا گیا، جب تفتیشی افسرسے سوال کیا گیا کہ ان کی آمدن سے متعلق دی جانے والی دستاویزات کا جائزہ لیا گیا ہے؟ تو انہوں نے اس بارے میں انکار کیا اور اسحاق ڈار پر 20 برس سے انکم ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے کا الزام عائد کیا گیا جب کہ ان کے تمام گوشوارے باقاعدہ ایف بی آر میں جمع ہوتے رہے ہیں اور نیب نے آج تک ان کی تفتیش بھی نہیں کی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس تمام صورتِ حال میں صرف ان کی عدم حاضری کی وجہ سے عدالت نے ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے اور اب عدالت کو آگاہ کیا ہے کہ وہ عدالت کے سامنے پیش ہونے کے لیے تیار ہیں، تو عدالت نے ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری معطل کیے ہیں اور سات اکتوبر کی تاریخ مقرر کی ہے، جس سے پہلے ہی اسحاق ڈار عدالت میں پیش ہو کر اپنا مؤقف بیان کریں گے۔

XS
SM
MD
LG