رسائی کے لنکس

حکومتی اقدامات سے عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے: مبصرین


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی تقریر براہِ راست نشر کرنے پر پابندی اور ان کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمے کے اندراج کے بعد ملک کے سیاسی حلقوں میں یہ سوال زیرِ گردش ہے کہ یہ اقدامات ان کی سیاسی مقبولیت پر کس طرح اثر انداز ہو رہے ہیں؟

عمران خان کے چیف آف اسٹاف شہباز گل پر غداری کے مقدمے کے بعد حکومتی اقدامات کو بعض مبصرین حکومت اور ملک کے مقتدر حلقوں کی جانب سے، جن کے لیے عمران خان ’نیوٹرلز‘ کا نام استعمال کرتے ہیں، فیصلہ کن اقدامات کے آغاز کے طور پر دیکھ رہے تھے۔

لیکن دوسری جانب بعض مبصرین کراچی کے انتخابات میں کامیابی اور گزشتہ روز عمران خان کی گرفتاری کی اطلاعات پھیلنے کے بعد سامنے آنے والے عوامی ردِ عمل کو سابق وزیرِ اعظم کے بیانیے کی مضبوطی اور بڑھتی ہوئی مقبولیت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اتوار کو کراچی کے حلقہ این اے 245 میں تمام حکومتی جماعتوں کے متفقہ امیدوار پی ٹی آئی کے مقابلے میں نصف ووٹ بھی نہیں لے سکے۔

مبصرین کے مطابق عمران خان اپنی حکومت کے دوران غیر مقبول ہو رہے تھے البتہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے ان کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔

عمران خان کے حالیہ جلسوں کو بھی کامیاب قرار دیا جا رہا ہے جب کہ سوشل میڈیا پر پہلے ہی پی ٹی آئی دیگر سیاسی جماعتوں سے آگے ہے اور کسی بھی ایشو پر ٹرینڈ بنا کر اپنا پیغام مؤثر انداز میں پھیلاتی ہے۔

مقبولیت میں اضافہ؟

سینئر صحافی اور تجزیہ کار مطیع اللہ جان نے وائس آف امریکہ سےگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت جو حالات نظر آ رہے ہیں وہ اسٹیبلشمنٹ کی غلطی کے باعث پیدا ہوئے۔ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو ایک سیاسی مہرے کے طور پر استعمال کیا البتہ وہ اب اس کھیل میں محض مہرہ نہیں رہے۔ انہیں اب اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت نہیں رہی اور وہ ایک سیاسی شخصیت بن چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کو خدشہ ہے کہ پاکستان میں پہلی بار ایک شخصیت فوج کو تقسیم کر رہی ہے۔ عمران خان نے فوج کو تقسیم کرنے کی جو کوشش کی، اس کی وجہ سے اب اسٹیبلشمنٹ کا ردِ عمل سامنے آ رہا ہے۔ اس لڑائی میں جو بھی نقصان ہوگا، اس کی ذمے داری بھی اسٹیبلشمنٹ پر عائد ہوگی۔

ڈان نیوز سے وابستہ سینئر صحافی اور تجزیہ کار مبشر زیدی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی مقبولیت میں اضافے سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت عوام کی امیدوں پر پوری نہیں اتر سکی۔

ان کے مطابق عوام کو موجودہ حکومت سے مہنگائی میں کمی اور مشکلات کے خاتمے کی امیدیں تھیں۔ ان کے بقول بدقسمتی سے ان مسائل میں کئی گنا اضافہ ہوا اور عمران خان سے مایوس عوام ایک مرتبہ پھر انہی کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

مبشر زیدی کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کے قیام کے بعد تاثر دیا گیا تھا کہ مہنگائی اور مشکلات عمران خان کی وجہ سے ہیں اور وہ یہ مشکلات ختم کریں گے البتہ صورتِ حال اس کے برعکس رہی۔ لوگ نالاں ہیں کہ حکومت مہنگائی کنٹرول کرنے میں ناکام رہی ہے۔

دوسری جانب مطیع اللہ جان کہتے ہیں کہ موجودہ صورتِ حال سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرے اور یقینی بنائے کہ وہ دوبارہ ایسی غلطی نہیں کی جائے گی۔ ورنہ انہیں عمران خان کے ہاتھوں مزید ہزیمت کا سامنا ہوگا۔

اینکر پرسن اور تجزیہ کار امیر عباس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ تحریکِ انصاف حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت ہیں۔عمران خان کو نظر انداز کرنا یا ان کی سیاسی قوت کو کچلنا آسان نہیں ہوگا۔ عمران خان پر پابندیاں لگانے سےانہیں فائدہ پہنچ رہا ہے۔

امیر عباس کے مطابق عمران خان کی تقریر براہِ راست دکھانے پر پابندی تھی لیکن بعض چینلز نے راولپنڈی میں ان کا جلسہ دکھایا ہی نہیں۔ جمہوریت کا اصول ہے کہ سیاسی عمل میں پابندیوں کا شکار ہونے والی قیادت مزید ابھر کر سامنے آتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ فروری 2022 میں عمران خان غیرمقبول ہو رہے تھے البتہ مہم جوئی نے انہیں مزید شہرت دی اور مقبول ترین لیڈر بنا دیا۔ کراچی کا میں ہونے والا ضمنی الیکشن اس کی واضح مثال ہے کہ جہاں عمران خان کی جماعت کے مخالف تمام جماعتوں کے امیدوار مل کر بھی ان کے برابر ووٹ نہیں لے سکے۔

ان کے مطابق عمران خان کے خلاف واقعی کوئی کیس ہے تو اس پر کام کیا جائے البتہ ان پر پابندیاں لگا کر اور گرفتار کرنے کی کوشش کرکے انہیں مزید مقبول بنایا جا رہا ہے۔

حکومت کا کردار کیا ہے؟

حکومت کے کردار کے حوالے سے سینئر صحافی مطیع اللہ جان نے کہا کہ اس وقت کی حکومت ایک طرح سے اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب یہ حکومت بھی اسٹیبلشمنٹ سے الگ ہوکر فیصلے کرے گی۔ ان کے مطابق جب حالات زیادہ خراب ہوں گے تو یہی سیاسی جماعتیں اپنے فیصلے کریں گی البتہ حالات کی خرابی پر اسٹیبلشمنٹ کی مدد کی ضرورت ہوگی۔

تجزیہ کار مبشرزیدی کا کہنا ہے کہ جو کیسز اس وقت حکومت بنا رہی ہے وہ عمران خان کے لیے فائدہ مند اور حکومت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوں گے۔ اگر ان کیسز کو صرف اصل نکتے تک محدود رکھا جاتا تو ٹھیک رہتا۔

ان کا کہنا ہے کہ عمران خان کا اسٹائل ہی یہی ہے کہ وہ مخالفین کو للکار کا سیاست کرتے ہیں۔ مجسٹریٹ اور پولیس کو دھمکیاں دینے پر قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے تھی لیکن دہشت گردی کا مقدمہ کسی بھی عدالت میں ٹھہر نہیں سکے گا۔

مبشر زیدی کے مطابق حکومت اس وقت آئی ایم ایف کی قسط جاری نہ ہونے کی وجہ سے بہت مشکل میں ہے۔ عمران خان واقعی ان کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں منجمد کرکے ’بارودی سرنگیں‘ بچھا گئے تھے ۔ لیکن اس وقت حکومت کی ہر حکمت عملی ناکام ہورہی ہے۔ 11 روپے پیٹرول بڑھنے پر جلوس نکالنے والوں نے چار گنا پیٹرول کی قیمتیں بڑھا دیں جس کی وجہ سے آئندہ الیکشن میں انہیں نقصان ہوگا۔

’حکومت پہل کرے‘

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملک کے حالات مزید سیاسی عدم استحکام کے متحمل نہیں ہیں اور تمام فریقین کو بات چیت کی جانب آنا چاہیے۔

تجزیہ کار اور صحافی امیر عباس کہتے ہیں کہ اس وقت عمران خان ضد پر اڑے ہوئے ہیں اور حکومت بھی ردِ عمل میں ایسا ہی کر رہی ہے۔ حکومت کی ذمے داری زیادہ ہے کیوں کہ چار ماہ سے زائد وقت گزرچکا اور معیشت ہو یا سیاست ہر جگہ صرف بحران نظر آ رہے ہیں۔ اگر حکومت گفتگو کا آغاز کرے تو پھر عمران خان پر اخلاقی دباؤ آئے گا کہ وہ بھی بات چیت کی طرف آئیں۔

امیر عباس کے مطابق عمران خان خود کسی سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، جو درست رویہ نہیں ہے۔ انہیں کوئی اس حکومت کا حصہ بننے کے لیے نہیں کہہ رہا۔ البتہ جمہوریت میں ڈائیلاگ سب سے زیادہ ضروری ہے۔ جب بحران پیدا ہوتے ہیں وہاں بات چیت ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی ایک ٹیم کا اعلان کرے، جس میں سنجیدہ لوگ شامل ہوں۔ یہ ٹیم عمران خان کو مذاکرات کی دعوت دے۔ اس کمیٹی کو پابند کیا جائے کہ وہ الیکشن اصلاحات اور عام انتخابات کی تاریخ سمیت فریقین جو بھی اعتراضات کو رکھیں، اس پر بات آگے بڑھائے۔

اسٹیبلشمنٹ کا کردار

امیر عباس نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کا پاکستان میں اہم کردار رہا ہے۔ اگرچہ ایسا نہیں ہونا چاہیے لیکن بہرحال یہ کردار تو ہے۔ اگر اس وقت اسٹیبلشمنٹ کسی معاملے میں شامل ہوگی تو عمران خان اسے تسلیم نہیں کریں گے۔ وہ پہلے ہی بار ہا اسٹیبلشمنٹ کو اپنے خلاف ہونے والے اقدامات کا ذمےدار قرار دیتے آئے ہیں۔

مطیع اللہ جان کا کہنا ہے کہ فوج کی موجودہ قیادت پر عمران خان اور کئی سیاسی جماعتوں کو اعتماد نہیں ہے۔ ایسی صورتِ حال میں حکومت کو اہم تعیناتیوں کے حوالے سے بڑے فیصلے کرنا ہوں گے۔ یہ ذمے داری وزیرِ اعظم شہباز شریف کے کندھوں پر ہے۔ بہتر یہی ہوگا کہ سازگار حالات میں یہ فیصلہ کیا جائے ۔بصورتِ دیگر بحران میں یہ فیصلے بھی متنازع ہو سکتے ہیں۔

مطیع اللہ جان کے بقول عمران خان نے بھی کہا ہے کہ نئے آرمی چیف کو میرٹ پر تعینات کیا جائے۔ اس کا مطلب ہے کہ فوج کی نئی قیادت آنے سے ملک میں کچھ استحکام پیدا ہوگا۔ تمام فریقین کو اس بارے میں علم ہوگا کہ نئے آرمی چیف اگلے تین سال کے لیے ہوں گے لہٰذا اس سے بہتری آنے کا امکان ہے۔

مبشر زیدی کا کہنا تھا کہ ہر چیز کو آرمی چیف کی تعیناتی سے جوڑنا غلط ہے۔ عمران خان چاہیں گے کہ الیکشن اکتوبر میں ہوجائے۔ یہ تعیناتی کوئی بھی کرے البتہ کارکردگی حکومت کو دکھانی ہے۔ اگر حکومت پرفارم نہ کرے تو کوئی بھی آجائے اور کوئی بھی آرمی چیف اپنی مرضی سے تعینات کردے ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا کام ہے کہ وہ عوام کو سہولتیں دے اور ان کے لیے مہنگائی کم کرے لیکن ایسا نہیں ہوتا تو اسے مستقبل میں کسی فیصلے کا فائدہ نہیں ہوگا۔

XS
SM
MD
LG