پاکستان نے کابل میں شادی کی تقریب میں ہونے والے خود کش حملے میں مبینہ طور پر پاکستانی شہری کے ملوث ہونے کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے انہیں مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان ان تمام خبروں کی تردید کرتا ہے جن میں داعش کے دعوے کی بنیاد پر حملہ آور کو پاکستانی ظاہر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ میڈیا کو غلط فہمیاں پھیلانے والے پروپیگینڈے کو خبروں میں جگہ دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ پاکستان ہر طرح کی دہشت گردی کے خلاف ہے اور کابل میں ہونے والے وحشیانہ حملے کی بھر پور مذمت کرتا ہے۔
'داعش کے ٹھکانوں کا ختم کریں گے'
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ ملک میں موجود داعش (دولت اسلامیہ) کے تمام محفوظ ٹھکانوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کر کے انہیں ختم کیا جائے گا۔
اشرف غنی کا بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب جمعے کی شب افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک شادی کی تقریب کے دوران خود کش حملے کے نتیجے میں 63 افراد ہلاک اور 180 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔
شدت پسند تنظیم داعش (دولت اسلامیہ) نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
صدر اشرف غنی نے خود کش حملے کے فوری بعد ایک ٹوئٹ میں اپنا ردعمل دیتے ہوئے خود کش حملے کو وحشیانہ اور غیر انسانی فعل قرار دیا تھا۔
انہوں نے صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بھی طلب کر لیا تھا۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی مذمت
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی کابل میں شادی کی تقریب پر ہونے والے خود کش حملے کی مذمت کی ہے۔
سیکریٹری جنرل کے ترجمان کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ سیکریٹری جنرل نے انسانی جانوں کے ضیاع پر متاثرہ خاندانوں کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔
افغانستان میں امن و امان کی خراب صورت حال
تازہ حملے کے بعد افغانستان میں بعض حلقے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان ممکنہ امن معاہدے کے باوجود ملک میں امن و امان کی بحالی کی کیا ضمانت ہے؟
طالبان نے بھی شادی کی تقریب پر ہونے والے خود کش حملے پر امریکہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ایک بیان میں طالبان ترجمان کا کہنا ہے کہ امریکہ حملے کی پیشگی اطلاع دینے میں مکمل طور پر ناکام رہا۔
افغان مفاہمت کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ افغانستان میں دولت اسلامیہ کو شکست دینے کے لیے افغان امن عمل کو تیزی سے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
افغانستان میں امن کوششوں کے باوجود گزشتہ چند ماہ میں پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ طالبان کا موقف رہا ہے کہ وہ امریکہ اور افغان فوج کی تنصیبات پر کارروائیاں جاری رکھیں گے۔ طالبان شہریوں کو نشانہ بنانے کی سختی سے تردید کرتے آئے ہیں۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے لیے مذاکرات کے آٹھ دور ہو چکے ہیں تاہم فریقین تاحال امن معاہدے پر متفق نہیں ہو سکے۔
فریقین کا دعویٰ رہا ہے کہ امن معاہدے کے لیے پیش رفت ہو رہی ہے تاہم بعض امور پر بات چیت اب بھی جاری ہے۔