چینی عہدے دار اس ہفتے یورپی ملکوں کو یہ اطمینان دلاتے رہے کہ یورپی یونین کے بعض ملکوں، جیسے اٹلی اور یونان میں قرض کے روز افزوں بحران کے باوجود، چین، یورو کو سہارا دیتا رہے گا۔
وزارتِ خارجہ کے ترجمان ہونگ لئی نے رپورٹروں سے کہا کہ بیجنگ کو امید ہے کہ یورپ میں اپنے قرض کے بحران پر قابو پانے اور چینی سرمایے کی حفاظت کی صلاحیت اور سمجھ بوجھ موجود ہے۔
چین کے غیرملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر کی 2.8 ٹریلین ڈالر کی رقم کا 25 فیصد حصہ یورو کرنسی والے اثاثوں میں لگا ہوا ہے۔ اگر یورو کی قدر کم ہوتی ہے تو بیجنگ کے سرمایے کےلیے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔
لیکن اب جب کہ یورپ کے ملکوں کو نقد رقم کی کمی کا سامنا ہے، بعض یورپی ملک جو چین سے ساتھ تعلقات میں محتاط تھے، اب مدد کے لیے اس کی طرف ہاتھ بڑھا رہے ہیں۔ اس ہفتے یورپین کونسل آن فارن ریلیشنز نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کا عنوان ہے ’’دی سکریمبل فار یورپ‘‘۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین اس بحران سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ وہ بہت کم قیمت پر سودے کر رہا ہے اور سرکاری قرضے خرید رہا ہے۔ چین کو یورپ کے ہائی ٹیک وسائل میں، جیسے گرین ٹیکنالوجی میں خصوصی دلچسپی ہے۔
اس رپورٹ کے مصنفین میں جوناز پاریلو پلیسنر بھی شامل ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’یورپ کا بحران چین کے لیے فائدہ اٹھانے کا موقع بن گیا ہے۔ یورپ کے ملک چین کو سستی اشیاء در آمد کیا کرتے تھے۔ لیکن اب چین یورپ میں بالکل مختلف انداز سے موجود ہے۔ اب وہ یورپی حکومتوں کے بانڈ خرید رہا ہے، ان کی مشکلات سے دو چار صنعتیں چلارہا ہے، نئی سڑکیں بنا رہا ہے، اور یورپ کے مختلف حصوں کو نئے انداز سے ملارہا ہے۔‘‘
چین کی سرمایہ کاری کی سطح تیزی سے بڑھ رہی ہے، اور 2015 تک یورپ میں چین کی سرمایہ کاری، چین میں یورپ کی سرمایہ کاری سے بڑھ جائے گی۔ یہ بات بعض یورپی ملکوں کے لیے پریشان کن ہے ۔ بعض ملکوں نے شکایت کی ہے کہ بیجنگ یورپی کمپنیوں کو چین میں برابر کے مواقع نہیں دے رہا ہے ۔پاریلو پلیسنر کہتے ہیں کہ یورپ کے ملکوں کو متحد ہو کر چین سے مطالبہ کرنا چاہئیے کہ وہ یکساں ضابطوں کی پابندی کرے اور یورپی کاروباری اداروں کو چین میں برابر کے مواقع فراہم کرے۔
’’ہمیں بھی چین میں ایسے ہی مواقع ملنے چاہئیں تا کہ اگر وہ یورپ میں سڑکیں بنا رہے ہیں، تو ہم چین میں سڑکیں بنا سکیں۔ چونکہ اب توازن تبدیل ہو رہا ہے، اور تعلقات کی نوعیت تبدیل ہو رہی ہے، اس لیے یورپ کو یہ طے کرنا چاہئیے کہ ہماری ترجیحات کیا ہوں گی۔‘‘
چین میں امریکہ کے سفیر گیری لوکر نے بھی چین سے اسی قسم کے مطالبات کیے،کہ وہ اپنے ہائی ٹیک اور بنیادی ڈھانچوں کے منصوبوں میں رسائی کے زیادہ مواقع فراہم کرے۔ اقتصادی طاقت کے ساتھ ساتھ چین اپنے سیاسی اثر و رسوخ میں بھی اضافہ کر رہا ہے ۔ یوروپین کونسل آن فارن ریلیشنز میں چین کے امور کی تجزیہ کار ایلس رچرڈز کہتی ہیں کہ اس علاقے میں چین کی سافٹ پاور کی حکمت عملی کے اثرات یورپ کے اعلیٰ سیاسی طبقے پر ظاہر ہو نے لگے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ایک زمانہ تھا کہ برسلزمیں یورپی یونین میں بیجنگ کا مشن، ڈپلومیٹک کمیونٹی سے بہت کم واسطہ رکھتا تھا اور چین کے بنیادی مفادات کے بارے میں شاید ہی کبھی کوئی بیان جاری کرتا ہو۔’’لیکن گذشتہ چند برسوں میں انھوں نے جو طریقہ اپنایا ہے وہ بہت ہوشیاری اور نفاست پرمبنی ہے۔ اب وہ ہرتھنک ٹینک کی میٹنگ میں اور یورپی پارلیمینٹ کی ہر سماعت میں موجود ہوتے ہیں۔ اب وہ ہر معاملے پر بات چیت کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ انہیں یورپ کے بارے میں ہر چیز معلوم ہے ۔‘‘
رچرڈز کہتی ہیں کہ چینیوں نے لندن کے حالیہ فسادات کا بغور مطالعہ کیا اور برطانوی وزیرِ اعظم کے اس بیان کی حمایت کی کہ عوامی بحث کو حدود میں رکھنے کے لیئے سوشل میڈیا پر کنٹرول کیا جانا چاہئیے۔‘‘
اس لحاظ سے وہ ہمیں بہتر طور پر سمجھنے لگے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ یورپ میں رائے عامہ کو کس طرح متاثر کیاجا سکتا ہے۔‘‘
اگرچہ یورپ کے بعض حصوں میں چین کو قبول کیاجانے لگا ہے،لیکن یورپی پبلک اب بھی چین کے معاملے میں محتاط ہے ۔ تا ہم یورپ کے بہت سے ملکوں کو مدد کی اشد ضرورت ہے۔ اس ہفتے چین نے اعلان کیاکہ وہ بیلارس کو جو یورپی یونین کا رکن نہیں ہے اور جس کی مالی حالت خراب ہے، ایک ارب ڈالر کا قرض دے رہا ہے اور اس ملک کے ساتھ مشترکہ منصوبوں پر کام کرے گا۔
چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ہونگ لئی نے کہا کہ دونوں ملک برابری کی بنیاد پر مشترکہ مفاد کے منصوبوں پر کام کریں گے۔ لیکن انھوں نے یہ نہیں کہاکہ تائیوان، تبت، سنکیانگ اور انسانی حقوق کے شعبوں میں بیلارس چین کی پالیسیوں کی حمایت کرتا ہے ۔ مالی مسائل کے باوجود، یورپی یونین کے ملکوں، جیسے یونان اور اٹلی کی طرف سے اس قسم کی سیاسی حمایت کا امکان کم ہے۔