پاکستان کے معاشی حالات کے حوالے سے سامنے آنے والی ایک تازہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ آنے والے مہینوں میں پاکستان میں کسی حد تک معاشی استحکام کے آثار نظر آ رہے ہیں۔
کراچی میں قائم ایکویٹی ریسرچ کے ادارے ’ٹاپ لائن سیکیورٹیز‘ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی درآمدات کم رہنے اور عالمی منڈی میں اجناس کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے جاری کھاتوں یعنی کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ رواں مالی سال میں کم رہے گا، جس سے روپے کی قدر میں بھی کسی حد تک استحکام کی امید ہے۔
اس کے ساتھ حکومت کی جانب سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی تمام شرائط پوری کرنے کے بعد قرض پروگرام کی بحالی سے دیگر مالیاتی اداروں اور دوست ممالک سے بھی مالی امداد ملنے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔
تاہم رپورٹ اور خود مرکزی بینک کے حکام کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح حکومتی ہدف سے کہیں زیادہ رہنے کی توقع ہے۔
رپورٹ میں لگائے گئے اندازے کے مطابق پاکستان کو رواں مالی سال میں آٹھ ارب 70 کروڑ ڈالر مجموعی قومی آمدنی یعنی جی ڈی پی کے 2.3 فی صد کے خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا، جس کا تخمینہ ملک کے مرکزی بینک نے 10 ارب ڈالر یعنی کل معاشی آمدنی کا تقریبا ساڑھے چار فی صد لگا رکھا ہے۔
اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو گزشتہ مالی سال کے اختتام پر پاکستان کو جاری کھاتوں یعنی کرنٹ اکاؤنٹ میں اپنی تاریخ کے دوسرے بڑے خسارے کا سامنا کرنا پڑا تھا، جب یہ 17 ارب 40 کروڑ ڈالر ریکارڈ کیا گیا تھا جب کہ اس سے قبل مالی سال 2020 میں یہ خسارہ محض دو ارب 80 کروڑ ڈالر تھا۔
ماہرین کے مطابق گزشتہ مالی سال میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ قابو سے باہر ہونے کی بنیادی وجہ 56 ارب ڈالر کا بلند تجارتی خسارہ تھا۔ تاہم اُسی سال ہی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ریکارڈ 31 ارب 20 کروڑ ڈالرز کی ترسیلاتِ زر بھی موصول ہوئیں تھیں جب کہ پاکستان کی برآمدات بھی پہلی بار 32 ارب 50 کروڑ ڈالرز سے زیادہ ہوئی تھیں۔ ملک میں خدمات کا تجارتی حجم منفی رہنے، بیرونی سرمایہ کاری مسلسل کم ہونے اور گزشتہ قرضوں کی ادائیگی زیادہ ہونے سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھتا رہا۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت کے بر وقت اقدامات اور مارکیٹ پر مبنی شرح مبادلہ رکھنے کی وجہ سے درآمدات متوقع شرح سے زیادہ تیزی سے گر رہی ہیں اور توقع یہ ہے کہ مالی سال 2023 میں کل درآمدات سخت مانیٹری اور مالیاتی پالیسی کی بدولت مزید کم ہو جائیں گی۔
گزشتہ مالی سال میں پاکستان کی کل درآمدات 80 ارب ڈالر کی ریکارڈ تاریخی سطح پر دیکھی گئی تھیں جو اس سال 62 ارب ڈالر کے قریب رہنے کی توقع ظاہر کی جارہی ہے، جس کی ایک وجہ بین الاقوامی منڈیوں میں اجناس کی قیمتوں میں کسی حد تک حالیہ کمی بھی ہے۔
دوسری جانب پاکستان کو رواں مالی سال تقریباََ 35 ارب ڈالر کی رقم درکار ہے، جس میں سے 23 ارب 50 کروڑ ڈالرز بیرونی قرضوں کی ادائیگی بھی شامل ہے۔
اقتصادی ماہر شہریار بٹ کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی تقریباً تمام شرائط پوری ہونے کے بعد فنڈ کی جانب سے چند ماہ کی تاخیر کے بعد ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی قسط بورڈ کی منظوری کے بعد جاری ہونے کی راہ ہموار ہوچکی ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ رقم اگست کے آخر تک جاری کر دی جائے گی۔
ان کے مطابق آئی ایم ایف کی اس توثیق سے پاکستان کو دیگر مالیاتی اداروں اور ممالک سے رقوم حاصل کرنے سمیت اور دو طرفہ اور کثیر جہتی قرضوں کے پروگرام پر عمل درآمد میں بھی مدد مل سکے گی۔
پاکستانی حکام کی کوشش ہے کہ سعودی عرب، قطر، چین اور دیگر دوست ممالک سے مزید چار ارب ڈالر کی امداد حاصل کرکے اس حوالے سے آنے والے فنڈنگ گیپ کو ختم کیا جائے۔
اس بارے میں امریکی حکام کے ذریعے آئی ایم ایف کو قائل کرنے کے علاوہ پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی خلیجی ممالک کی قیادت سے بھی بات چیت کی رپورٹس سامنے آئی ہیں تاہم سرکاری ذرائع نے ان خبروں کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔
ادھر وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ پاکستان، سری لنکا جیسی صورتِ حال کی جانب جانے سے نکل چکا ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے ’سی این بی سی‘ کو دیے جانے والے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ بروقت حکومتی اقدامات سے ملک دیوالیہ ہونے کے خطرے سے نکل گیا ہے۔ حکومت کو توقع ہے کہ رواں ماہ کے آخر میں آئی ایم ایف کا بورڈ قرضے کی منظوری دے گا جب کہ حکومت نے ایندھن اور توانائی پر دی جانے والی سبسڈی بھی ختم کردی ہے۔ طلب میں کمی لانے کے لیے شرح سود میں اضافہ کیا گیا ہے جب کہ درآمدات پر قابو پایا گیا ہے ۔ ان کے خیال میں معیشت ٹھیک راہ پر گامزن ہوچکی ہے۔
وفاقی وزیر نے اس خیال سے بھی اتفاق کیا کہ ان تمام اقدامات سے پاکستانی عوام کو شدید تکالیف سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ یہ ایک مشکل وقت تو ضرور ہے لیکن اگر ایسے اقدامات نہ کیے جاتے تو صورتِ حال مزید خراب ہوسکتی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت نیچے آنے سے ملک میں مہنگائی کی شرح کسی حد تک کم اور حالات بہتر ہو جائیں گے۔
پاکستان کے ادارہ شماریات کا کہنا ہے کہ جولائی کے اختتام پر ملک میں افراط زر یعنی مہنگائی کی شرح 24 فی صد سے بھی بلند ریکارڈ کی گئی ہے۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ متوقع افراط زر مالی سال 2023 میں اسٹیٹ بینک کے نظرِ ثانی شدہ تخمینہ 18 فی صدسے 20 فی صد کے قریب ہی رہے گا۔
معاشی ماہر سلمان نقوی کا کہنا ہے کہ امید ظاہر کی جارہی ہے کہ اگر عالمی مارکیٹ میں تیل اور دیگر اہم درآمدی اجناس کی قیمتیں کنٹرول میں ہی رہیں تو پاکستان کی کرنسی روپیہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں 48 روپے یا تقریباََ 21 فی صد تک گرنے کے بعد رواں سال کے بقیہ مہینوں میں کسی حد تک مضبوط ہوگا۔
انہوں نے توقع ظاہر کی کہ مالی سال 2023 کے دوران ڈالر کے مقابلے میں پاکستان کی کرنسی 200 سے240 روپے کے درمیان رہتے ہوئے اوسطاً 220 روپے پر ہونے کا امکان ہے جب کہ حالیہ دنوں میں بھی روپے کی قدر میں استحکام کا سلسلہ برقرار ہے اور انٹر بینک میں ایک امریکی ڈالر کی قیمت 239 روپے سے کم ہو کر 221 روپے تک آچکی ہے۔
ان کے مطابق حکومت کو معاشی استحکام کو دیرپا بنانے کے لیے معاشی اصلاحات، برآمدات کو تیزی سے بڑھانے پر غور کے ساتھ ساتھ زرعی میدان میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال عام کرنا ہوگا۔
ادھر رپورٹ کے مندرجات کے مطابق ملک میں حکومت کی حالیہ تبدیلی کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام جاری رہنے کا امکان ہے لیکن توقع ہے کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی اور انتخابات 2023 میں ہوں گے جو معاشی استحکام کے لیے کلیدی ہوں گے۔