رسائی کے لنکس

ایلبکرکی: ’مسلمانوں کے سلسلہ وار قتل کے بعد ڈر رہتا ہے، کوئی پھلانگ کر نہ آ جائے‘


افضال حسین اپنے بھائی امتیاز حسین کے ساتھ۔
افضال حسین اپنے بھائی امتیاز حسین کے ساتھ۔

’’یہ بہت درد ناک ہے۔ ہمارے بچے ہر وقت دروازے اور کھڑکیوں کو دیکھتے رہتے ہیں کہ کوئی پھلانگ کر نہ آ جائے۔ ہم نے بچوں کو گھر کی بالکونی پر جانے سے منع کر دیاہے۔ گھر والے سودا سلف لانے سے منع کرتے ہیں بلکہ کوئی واش روم میں پانچ سے 10 منٹ زیادہ رہے تو گھر والے پریشان ہو جاتے ہیں۔‘‘

یہ کہنا تھا امریکہ کی ریاست نیو میکسیکو کے شہر ایلبکرکی میں پیر کو قتل ہونے والے افضال حسین کے بھائی محمد امتیاز حسین کا۔

امتیاز حسین نے وائس آف امریکہ سے ٹیلی فون پر گفتگو کے دوران بتایا کہ وہ اپنے آپ کو بالکل محفوظ نہیں سمجھتے۔

انہوں نے کہا کہ "دیکھیے جہاں ہم دن، رات اکیلے پھرتے ہیں۔ جہاں آپ رہ رہے ہیں، وہاں آپ کا بھائی گھر سے کچھ ہی دور قتل کیا گیا ہو۔ پھر خوف تو پھیلنا ہے۔"

’’پھر جس جگہ ہم نے پورا ایک مظاہرہ کیا اور دکھایا ہے کہ ہم متحد ہیں۔ جہاں میرے بھائی کا جنازہ ہوا، اسی دن ایک بندہ، جس نے اس کے جنازے میں شرکت کی تھی، اس کو قتل کر دیا گیا۔"

افضال حسین کانگریس وومن میلینی سٹانسبری کے ساتھ۔
افضال حسین کانگریس وومن میلینی سٹانسبری کے ساتھ۔

افضال حسین کے بارے میں بات کرتے ہوئے امتیاز حسین نے بتایا کہ ’’میرا بھائی خوش باش آدمی تھا، وہ کرکٹ کھیلتا تھا۔ کیمپنگ کرنا، فشنگ کرنا، کرکٹ کی لیگز کرانا اس کے مشغلے تھے۔ وہ یہاں پر مسلم برادری میں بہت مقبول تھا۔‘‘

انہوں نے بتایا کہ ان کے بھائی کو سیاست کا بہت شوق تھا۔ وہ پاکستان میں بھی طالب علم رہنما رہے تھے۔ امریکہ آ کر انہوں نے نیو میکسیکو اسٹیٹ یونیورسٹی میں طلبہ یونین کا انتخاب لڑا اور بڑے مارجن سے وہ صدر منتخب ہوئے۔

امتیاز حسین کے بقول انہوں نے تعلیم کے بعد بھی سیاسی سفر جاری رکھا اور کانگریس وومن میلینی سٹانسبری کی انتخابی مہم کا حصہ بن گئے۔

ان کا کہا تھا کہ اس نے ہمیشہ مجھے کہا کہ میں نے یہاں کی نچلی سطح کی سیاست کو سمجھ لیا ہےلیکن ان کے لیے یہ رکاوٹ تھی کہ وہ پاکستانی تھے۔ تو پہلے انہیں پاسپورٹ چاہیے تھا۔ ان کو اسپانسر شپ ملی تو انہوں نے نوکری شروع کر دی۔

امتیازحسین کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں ایلبکرکی میں ہونے والی ان تمام وارداتوں کی الگ الگ تحقیقات ہونی چاہیے اور ان وارداتوں کو اسی طرح نہیں لینا چاہیے۔ تفتیش کے دوران کوئی امکان رد نہیں کرنا چاہیے۔

’’واقعات کو دیکھ کر ہم جو تجزیہ کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ قتل منصوبہ بندی سے کیے گئے۔ شدید نفرت پر مبنی ہیں اور انہیں ٹارگٹ کیا گیا۔ اب اس کا مقصد کیا تھا کیوں کہ تین لوگوں کا نام حسین ہے۔ یہ کیسے ہوا؟‘‘

وہ کہتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں رائے نہیں دینا چاہتے ان کی نظر میں بظاہر تو یہ نفرت پر مبنی وارداتیں لگتی ہیں۔

انہوں نے امکان ظاہر کیا کہ یہاں ذاتی دشمنی ہو لیکن ان کا کسی کے ساتھ کسی لین دین یا کسی اور معاملے میں مخاصمت نہیں تھی۔

امتیاز حسین کا کہنا تھا کہ سب سے دردناک بات ان کے والد کے لیے ہے۔ ان کی والدہ کی وفات کے بعد ان کے والد دونوں بیٹوں کو وطن واپس بلانا چاہتے تھے لیکن افضال کا کہنا تھا کہ پاکستان میں حالات مشکل ہیں جب کہ انہیں امریکہ میں کسی تفریق کا سامنا نہیں ہے۔ افضال کی موت کے بعد ان کے والد بہت ناراض ہیں۔ان کے بقول ’’ وہ مجھے موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔‘‘

انہوں نے بتایا کہ ’’ان کو اب جب کہا کہ اس کی میت پاکستان نہیں لائی جا سکتی کیوں کہ اس کی حالت ایسی نہیں ہے۔ تو ان کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی ہے۔‘‘

افضال حسین
افضال حسین

اس واقعے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’دکھ ایک بات کا ہے۔ قتل پیر کی شب ہوا۔ جمعے کی رات کو ایک اور قتل ہو جاتا ہے۔ پوری دنیا میں یہ خبر جمعے کو شائع ہو گئی تھی۔ مجھے اگرچہ پاکستان کے سفیر کی کال آئی لیکن جہاں کے ہم شہری ہیں ابھی تک دفترِ خارجہ پاکستان نے اس سلسلے میں کوئی حمایت ظاہر نہیں کی۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ اس پر ایک پیغام ہی دے دیتی۔ جب قونصل خانے میں بات کی تو انہوں نے بتایا کہ انہوں نے سوشل میڈیا پوسٹ کی ہے۔ اگر کسی اور ملک کا شہری کسی اور جگہ مارا جاتا تو کیا وہاں پر انتظار کیا جاتا کہ جب پوری دنیا میں خبر نشر ہو گی تو پھر بیان دیا جائے گا۔‘‘

ایلبکرکی میں ہی جمعے کو ہلاک ہونے والے نعیم حسین کے ہم زلف احسان نے، جو ریاست ورجینیا میں مقیم ہیں، وائس آف امریکہ کو بتایا کہ نعیم بطور تارک وطن 2016 میں امریکہ منتقل ہوئے اور انہوں نے ایلبکرکی میں رہائش اختیار کی۔ وہیں انہوں نے گھر لیا اور ٹرکوں کے کاروبار سے وابستہ ہوئے۔

انہوں نے بتایا کہ نعیم گزشتہ کئی برس سے بڑے ٹرک چلا رہے تھے۔ رواں برس ہی انہوں نے ورجینیا میں اورکزئی ٹرکنگ کمپنی کے نام سے اپنا کاروبار رجسٹر کرایا تھا۔ انہوں نے اسی برس اپنا پہلا ٹرک خریدا تھا اور وہ ٹرکوں کا فلیٹ بنانا چاہتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ نعیم کا تعلق سابقہ قبائلی علاقوں میں ضلع اورکزئی میں وادی تیراہ سے تھا۔ نعیم کے تمام رشتے دار پاکستان میں ہیں اور گزشتہ ماہ آٹھ جولائی کو انہیں شہریت ملی تھی۔ وہ پاسپورٹ ملنے کے بعد پاکستان جا کر اپنے رشتے داروں سے ملنا چاہتے تھے۔

احسان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں نعیم کی میت ملنے میں دشواری ہو رہی ہے کیوں کہ حکام لاش صرف قریبی رشتے داروں کے حوالے کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے انہوں نے ابھی تک نعیم کے عزیز، رشتے داروں کو ان کی موت کے بارے میں نہیں بتایا۔

انہوں نے بتایا کہ ’’ان کے والدین کو ابھی تک خبر نہیں دی گئی۔ یہی کوشش کی جا رہی ہے کہ جب میت کا پتا چلے گا کہ وہاں اس تاریخ کو پہنچ رہی ہے تو پھر انہیں آگاہ کیا جائے گا۔ ابھی تک یہ خبر چند لوگوں کو ہی دی گئی ہے۔‘‘

احسان کا کہنا تھا کہ ابھی تک حکام ان سے رابطہ نہیں کر رہے اور انہیں کیس سے متعلق زیادہ تفصیلات معلوم نہیں ہیں۔

یاد رہے کہ ریاست نیومیکسیکو کے شہر ایلبکرکی میں چار مسلمانوں کی ہلاکت کے بعد پولیس نے کہا ہے کہ ریاست کے سب سے بڑے شہر میں گزشتہ نو ماہ میں قتل کیے گئے دیگر تین مسلمان مردوں کو بظاہر ان کے مذہب اور نسل کی وجہ سے ہدف بنایا گیا تھا۔

قتل ہونے والے افراد میں سے دو ایک ہی مسجد سے وابستہ تھا، جنہیں جولائی کے آخر اور اگست کے اوائل میں ایلبکرکی میں گولی مار کر قتل کیا گیا تھا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ ان کی موت کا تعلق نومبر میں ایک افغان تارک وطن کے قتل سے ہو ۔

نیو میکسیکو اسٹیٹ پولیس ، ایف بی آئی اور یو ایس مارشل سروس تحقیقات میں مدد کرنے والی ایجنسیوں میں شامل ہیں۔

تحقیقات کرنے والے حکام کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایسی کار کی تلاش میں ہیں جس کے بارے میں خیال ہے کہ اس کا تعلق ان وارداتوں سے ہو سکتا ہے۔

پولیس نے ہفتے کو کہا تھا کہ تازہ ترین واقعے میں مقتول کا تعلق جنوبی ایشیا سے تھا اور اس کی عمر 20 سال کےقریب تھی۔

مقتول شخص کو، جس کی تفتیش کاروں نے اس وقت تک شناخت نہیں کی تھی ، پولیس کو فائرنگ کی اطلاع ملنے کے بعد مردہ پایا گیا۔ حکام نے یہ بتانے سے انکار کیا کہ آیا یہ قتل دیگر اموات کی طرح کیا گیا تھا۔

امریکہ: قاتلانہ حملہ کرنے والے شخص کو معاف کرنے والا مسلمان
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:09 0:00

پولیس نے گزشتہ ہفتے تصدیق کی تھی کہ مقامی جاسوس اور نفاذ قانون کے وفاقی حکام ہلاکتوں کے واقعات کے درمیان ممکنہ تعلق کی تلاش میں ہیں۔

مقتول افراد میں سے دو 27 سالہ محمد افضال حسین اور 41 سالہ آفتاب حسین کو گزشتہ ہفتے قتل کیا گیا تھا۔ دونوں کا تعلق پاکستان سے تھا۔ تیسرا کیس نومبر میں جنوبی ایشیائی نسل کے ایک مسلمان شخص 62 سالہ محمد احمدی کے قتل سے متعلق ہے۔

حکام کاکہنا ہے کہ وہ جب تک کہ کسی مشتبہ شخص اور محرک کی شناخت نہ کر لیں اس بات کا تعین نہیں کر سکتے کہ آیا فائرنگ کے واقعات کا تعلق نفرت پر مبنی جرائم سے ہے ۔

XS
SM
MD
LG