گلگت بلتستان میں انسدادِ دہشت گردی کی ایک عدالت نے ضلع اسکردو میں ایک نو عمر لڑکی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے جرم میں سات افراد کا دو ہفتوں کا پولیس ریمانڈ دے دیا ہے جب کہ ایک ملزم کراچی فرار ہو چکا ہے۔
اسکردو بازار میں مقامی تنظیموں اور انسانی حقوق کی انجمنوں کے افراد نے اتوار کو ایک بڑی ریلی نکالی اور اس واقعے میں ملوث تمام ملزمان کو جلد گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
اجتماعی زیادتی کا یہ واقعہ ضلع اسکردو کے دور افتادہ علاقہ روندو طورمک میں پیش آیا، جہاں ایک لڑکی کو کئی ماہ تک اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
اسکردو پولیس کے ایک سینئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حراست میں لیے جانے والے ملزمان کی عمریں 18 سے 60 سال کے درمیان ہیں۔
پولیس کے مطابق گزشتہ برس رمضان میں متاثرہ لڑکی اپنے گھر کے قریب ایک علاقے میں جلانے کی لکڑیاں جمع کرنے کے لیے گئی تھی، جہاں ایف آئی آر میں نامزد ملزمان میں سے ایک نے کمسن لڑکی سے پہلے دوستی کی۔ اس کو شادی کا جھانسہ دیا اور اس لڑکے نے بعد میں اسے زیادتی کا نشانہ بنایا۔ اس کے بعد اس لڑکی کو مختلف طریقوں سے بلیک میل کیا گیا اور مزید افراد سے ملوایا گیا۔ یوں یہ سلسلہ کئی ماہ تک چلتا رہا۔
پولیس کا مزید کہنا ہے کہ جب خاندان والوں کو متاثرہ لڑکی کے حاملہ ہونے کا علم ہوا، تو انہوں نے اس گھناؤنے جرم کے متعلقہ کرداروں کے اہلِ خانہ سے رابطہ کیا، جنہوں نے اس عمل سے صاف انکار کیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ متاثرہ لڑکی کے خاندان کے افراد نے گزشتہ ہفتے بدھ کو تھانے میں ملزمان کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔
پولیس نے تصدیق کی ہے کہ اس معاملے کا مقدمہ 28 دسمبر کو درج کیا گیا ہے۔
حکام کا مزید کہنا ہے کہ سات افراد کی گرفتاری ایف آئی آر کے بعد عمل میں لائی گئی جب کہ آٹھویں ملزم کو اس کے گھر والے کراچی سے لا رہے ہیں۔
حکام کا دعویٰ ہے کہ آئندہ ایک یا دو ایام میں تمام آٹھ ملزمان کو گرفتار کیا جا چکا ہوگا۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے اسکردو میں نمائندے وزیر مظفر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گزشتہ رمضان میں اسکردو کے دور افتادہ روندو طورمک کے علاقے میں ایک لڑکے نے نو عمر لڑکی کو پہلے شادی کا جھانسہ دے کر زیادتی کا نشانہ بنایا اور بعد میں مزید افراد کو بھی اس گھناؤنے کام میں شامل کیا۔
وزیر مظفر کے مطابق لڑکی کے والدین قوت گویائی و سماعت سے محروم ہیں۔
بدھ کو لڑکی کےماموں نے تھانہ ڈمبوداس میں آٹھ افراد کے خلاف مقدمہ درج کرایا تھا جس میں سے پولیس نے سات افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق لڑکی کی عمر 14 سے 15 برس ہے اور وہ دو ماہ کی حاملہ ہے۔
مزید یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سنگین صورتِ حال کی وجہ سے متاثرہ لڑکی سمیت تمام گھر والے شدید ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ اس کرب ناک صورتِ حال سے دل برداشتہ ہونے کی وجہ سے متاثرہ لڑکی نے خود کشی کی کوشش بھی کی ہے۔
گلگت بلتستان کے وزیرِ اعلیٰ نے بھی اس معاملے کا نوٹس لیا ہے اور پولیس حکام کو ہدایات جاری کی ہیں کہ تمام ملزمان کے خلاف عبرت ناک کارروائی کی جائے۔
گلگت بلتستان میں زیادتی کے واقعات بہت کم رپورٹ ہوتے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں کے مطابق اس قسم کے واقعات کا رونما ہونا کسی بھی طور خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں ہے۔