رسائی کے لنکس

کراچی کو پانی فراہمی کے منصوبے کی اونرشپ وفاق کو منتقل، مزید دو سال تاخیر کا ذمہ دار کون؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کو پانی فراہم کرنے کا بڑا منصوبہ 'گریٹر کراچی بلک واٹر سپلائی اسکیم' یعنی کے-فور مزید تاخیر کا شکار ہو گیا ہے اور اب اس منصوبے کا پہلا مرحلہ جولائی 2023 تک مکمل ہونے کی امید ظاہر کی جا رہی ہے۔

موجودہ صورتِ حال میں اس منصوبے پر نومبر سے قبل کام شروع ہونے کا کم ہی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

یاد رہے کہ یہ منصوبہ پہلے ہی مختلف وجوہات کی وجہ سے 13 سال سے زیرِ التوا ہے اور اس کی وجہ سے کراچی کی بڑی آبادی کو پانی جیسی اہم ترین بنیادی ضرورت کے حصول میں شدید پریشانی کا سامنا ہے۔

وائس آف امریکہ کو حاصل ہونے والی دستاویزات کے مطابق کے-فور منصوبہ اب سندھ حکومت کے بجائے وفاق نے تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جب کہ یہ منصوبہ پہلے 'کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ' (کے ڈبلیو ایس بی) کے تحت مکمل ہونا تھا۔ جو اب وفاقی وزارتِ پانی و بجلی کے تحت چلنے والے 'واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی' (واپڈا) تعمیر کرے گی۔

اونرشپ سندھ کے بجائے وفاقی حکومت کی ہو گی

کے-فور منصوبہ شروع کرنے کے لیے وفاقی وزارتِ منصوبہ بندی کی 'سینٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی' (سی ڈی ڈبلیو پی) نے دسمبر میں اجلاس میں منظوری دی تھی۔ اس منصوبے پر 25 ارب 50 کروڑ روپے جب کہ اتنی ہی رقم صوبائی حکومت نے دینی ہے۔

اب اس منصوبے کی اونرشپ سندھ حکومت کے بجائے وفاقی حکومت کی ہو گی۔

سینٹرل ورکنگ ڈویلپمنٹ پارٹی نے اس منصوبے کو وفاقی حکومت کی اونرشپ میں منتقل کرتے ہوئے یہ نوٹ کیا کہ منصوبے میں سندھ حکومت کی جانب سے غیر معمولی تاخیر کی گئی۔

سی ڈی ڈبلیو پی کے بعد ایکنک نے بھی اس منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔ اور اب مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں اس کی رسمی منظوری ہونا باقی ہے۔

اس منصوبے کے پہلے مرحلے پر عمل درآمد کے لیے ڈیزائن کا کنٹریکٹ 'عثمانی اینڈ' کو نامی کمپنی کو دیا گیا تھا جس کی منظوری کے بعد 2016 میں سندھ حکومت نے اہم نوعیت کا منصوبہ ہونے کی وجہ سے قواعد میں نرمی کی اور فوج کے انجینئرنگ کے شعبے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن​ (ایف ڈبلیو او) کو منصوبے کا ٹھیکہ دیا۔

ایف ڈبلیو او نے منصوبے پر 2016 میں کام بھی شروع کیا تھا اور امید کی گئی تھی کہ اب منصوبے کا پہلا مرحلہ نومبر 2018 تک مکمل ہو گا۔ البتہ نیشنل انجینئرنگ اینڈ سائنٹیفک کمیشن (نیسکام) نے اس منصوبے کے ڈیزائن میں خامیوں کی نشاندہی کی جس کے بعد اس میں متعدد تبدیلیاں ہوئیں اور پھر اس کے ساتھ لاگت میں اضافے کی وجہ سے منصوبہ نامکمل ہی رہا۔

تحریک انصاف کی حکومت کے اعلان کردہ 'کراچی پیکج' میں کے-فور منصوبے کی شمولیت اور پھر ایکنک کی منظوری کے بعد بھی حکام کا کہنا ہے کہ قوانین کے تحت کنسلٹنٹ کے لیے ایڈورٹائزمنٹ، منصوبے کے تکنیکی، مالی قدر کے اندازے کے ساتھ کنسلٹنٹ سے اس بارے میں مذاکرات اور پیپرا رولز کے تحت دیگر قوانین اور طریقۂ کار طے کرنے میں مزید 90 روز یعنی اپریل 2021 تک کاوقت درکار ہوگا۔ جس کے بعد ہی واپڈا اس منصوبے پر کام شروع کر سکے گا۔

دستاویزات کے مطابق کنسلٹنٹ سے امید کی جا رہی ہے کہ جولائی 2021 تک اس بارے میں ڈیزائن رپورٹ، پی سی ون اور بڈنگ ڈاکومنٹ پیش کیے جائیں گے۔

پھر اس پر نظرِ ثانی، مختلف دیگر متعلقہ ضروریات کی تکمیل کے بعد امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ نومبر میں اس منصوبے پر کام شروع ہو سکے گا۔

اور اگر اس دوران پہلے والے کنٹریکٹر سے مذاکرات کسی بھی وجہ سے ناکام ہو گئے تو پھر نئے کنٹریکٹر کی تلاش کے ساتھ اس کام میں مزید تاخیر کا امکان موجود ہے۔

البتہ اگر اسی ٹائم لائن پر عمل درآمد جاری رہا تو 20 ماہ کی مدت میں منصوبے کا سول ورک، ایویلیوایشن اور مانیٹرنگ سمیت دیگر امور مکمل ہو سکیں گے۔

رکاوٹیں نہ ڈالی گئیں تو منصوبہ 2023 تک مکمل کرنے کا عندیہ

وفاقی وزیرِ پانی و بجلی فیصل واوڈا کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کو جلد از جلد شروع کرنے کے لیے واپڈا کے ماہرین کوشاں ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ واپڈا جانتا ہے کہ اس منصوبے کو کیسے جلد مکمل کرنا ہے۔ مگر اس مقصد کے لیے ماہرین کو دوبارہ سے ڈیزائن سے لے کر منصوبے سے جڑی تمام چھوٹی چھوٹی جزیات کو بھی دیکھنا ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ واپڈا کی حکمتِ عملی سے یہ منصوبہ کم مدت اور کم لاگت سے جلد مکمل ہو گا۔ اور اگر کام میں سندھ حکومت نے رکاوٹیں نہ ڈالیں تو اس منصوبے کا پہلا مرحلہ موجودہ حکومت ہی کے دور میں مکمل ہو جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ منصوبے کے لیے سرمائے کی فراہمی کے لیے کئی امور اور امکانات پر غور کیا جا رہا ہے۔

کراچی کو اضافی پانی کی فراہمی کے لیے 2007 میں کے-فور منصوبے کی کاغذی کاروائی مکمل ہوئی تھی۔

اس منصوبے کے تحت شہر کو مجموعی طور پر 65 کروڑ گیلن پانی یومیہ فراہم کیا جائے گا۔

منصوبے کے پہلے مرحلے سے شہر کو 26 کروڑ گیلن اور دوسرے مرحلے میں 13 کروڑ گیلن یومیہ پانی فراہم ہو گا۔ البتہ یہ منصوبہ 13 سال تاخیر کا شکار رہا ہے اور اس پر لاگت کا تخمینہ بھی 15 ارب روپے سے بڑھ کر 75 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔

منصوبے کی جلد تکمیل نہ ہونے سے شہر میں فسادات کا خدشہ

کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ (کے ڈبلیو ایس بی) کے مینجنگ ڈائریکٹر (ایم ڈی) اسد اللہ خان کا کہنا ہے کہ کے-فور منصوبہ کراچی میں پانی کی قلت دور کرنے کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ کیوں کہ شہر میں اگر فوری طور پر قلتِ آب پر قابو نہ پایا گیا تو شہر میں امن و امان کی صورتِ حال خراب ہو سکتی ہے اور شہر میں پانی پر فسادات ہو سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی کو اس وقت ایک ارب 10 کروڑ گیلن یومیہ پانی کی ضرورت ہے۔ مگر فی الوقت ضرورت کا محض 45 فی صد پانی شہر کو فراہم کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے شہری زیرِ زمین پانی کا استعمال کرنے پر مجبور ہیں جو کھارا اور نمکین ہے۔

ان کے مطابق عالمی ادارۂ صحت کے معیار کے مطابق کراچی کا زیرِ زمین پانی پینے کے استعمال کے لیے موزوں نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ڈیڑھ دہائی میں کراچی میں پانی کی فراہمی میں ایک بوند کا بھی اضافہ نہیں ہوا۔ جب کہ اس دوران آبادی کی شرح میں 2.4 فی صد سالانہ کی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب منصوبے میں سندھ حکومت کے بجائے تمام کام وفاقی حکومت کے ذمے ہے۔ تاہم منصوبہ مکمل ہونے کے بعد اس کے تحت شہر کے اندر پانی کی فراہمی واٹر بورڈ ہی کے ذمے ہو گی۔

کے-فور منصوبے کے تحت کراچی کو اضافی پانی کی فراہمی کے لیے کینجھر جھیل سے 120 کلومیٹر طویل کینال کی کھدائی کے ساتھ پانی کی ٹرانسمیشن کے لیے پمپنگ اسٹیشنز کا قیام اور دیگر انفراسٹرکچر تعمیر کیا جائے گا۔

شہر کے اندر پانی کی فراہمی ممکن بنانے کے لیے انفراسٹرکچر کا قیام کراچی واٹر بورڈ ہی کے سپرد ہوگا۔

منصوبے کی تکمیل کے لیے جذبے اور قیادت کی کمی

ادھر ماضی میں منصوبے سے منسلک کراچی واٹر بورڈ کے ایک افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ منصوبے کے لیے مختص کی گئی زمین جہاں سے اس کا راستہ گزرنا تھا وہی زمینیں انرجی کوریڈور کے تحت ونڈ انرجی پراجیکٹس کے لیے بھی الاٹ کی گئیں جس کی وجہ سے تیزی سے کام میں رکاوٹ آتی رہی اور اس پر یہ پراپگنڈا کیا گیا کہ منصوبے کا ڈیزائن تبدیل کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ اور اس پر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے خط لکھ کر صوبائی حکومت کو آگاہ کیا۔ مگر اس پر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔

ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے اس منصوبے پر صوبائی حکومت کے ساتھ وفاقی حکومت نے بھی انتہائی تاخیر سے دلچسپی ظاہر کی۔ صرف زبانی دعوؤں پر ہی اکتفاء کیا گیا جس کے باعث صورتِ حال مزید گھمبیر ہو چکی ہے۔ جب کہ منصوبے کی قیمت میں اربوں روپے کا اضافہ ہو چکا ہے۔

ان کے بقول اگرچہ واپڈا کو یہ منصوبہ منتقل تو ہو چکا ہے۔ مگر اس کے باوجود بھی یہ امید نہیں کہ منصوبہ بہت جلد مکمل ہو جائے گا۔

ان کے خیال میں اس منصوبے کو جنگی بنیادوں پر مکمل کرنے کے لیے جس جذبے اور لیڈر شپ کی ضرورت ہے وہ فی الوقت کہیں نظر نہیں آتی۔

'جلد مکمل ہونے کی کوئی امید نظر نہیں آتی'

شہری امور پر نظر رکھنے والے ایک ماہر اور اربن ریسورس سینٹر سے وابستہ زاہد فاروق کے خیال میں منصوبے کی آج تک تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہی اس وقت آئی جب اس کا ڈیزائن ملک کے سب سے بڑے بلڈر کی ہاوسنگ اسکیم کو نوازنے کے لیے تبدیل کیا گیا جس سے منصوبے کی قیمت بڑھی، منصوبہ میں مزید تاخیر ہوئی اور جن لوگوں کی زمین اس منصوبے کی زد میں آئی ان سے مال دار اور اثر و رسوخ رکھنے والے لوگوں نے اونے پونے داموں زمین خرید لی تاکہ حکومت کو مہنگے داموں دی جائے۔

زاہد فاروق کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ پہلے ہی التوا کا شکار ہے اور اس کے جلد مکمل ہونے کے لحاظ سے کوئی امید نظر نہیں آتی لیکن اس کے ساتھ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ کراچی کے اندر پانی کے بوسیدہ نظام کی وجہ سے یہاں 30 سے 35 فی صد پانی ضائع ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے یہاں پانی کی قلت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG