پاکستان کے سیاست دانوں کی جانب سے خواتین رہنماؤں سے متعلق نازیبا زبان کا استعمال گزشتہ دہائی میں بڑھتا نظر آرہا ہے۔بعض ماہرین اسے 'نیو نارمل' قرار دے رہے ہیں۔
جلسوں، سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا کے ساتھ پارلیمان میں بھی ایسی زبان سرعام استعمال کی جا رہی ہے۔
وفاقی وزیرِ تعلیم رانا تنویر کی پارلیمان میں عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر تنقید ہو یا تیمور جھگڑا کی ذومعنی ٹوئٹ، بعض مبصرین اسے ملک میں بڑھتی سیاسی تقسیم اور خواتین سے متعلق معاشرے کی پدر شاہی سوچ کی عکاسی قرار دیتے ہیں۔
خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر مریم نواز نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 90 روز کے اندر الیکشن کرانے کے عدالتی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے ایک ٹوئٹ کی تھی۔
مریم نواز نے کہا تھا کہ الیکشن کیس کے فیصلے سے قبل یہ فیصلہ ہونا چاہیے کہ 4/3 کے فیصلے کو 3/2 میں کیوں بدلا گیا۔اس پر تیمور جھگڑا کی ایک ذومعنی ٹوئٹ پر سوشل میڈیا پر ردِعمل سامنے آیا تھا۔
اس سے قبل رانا تنویر نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران عمران خان کے خلاف ایوان میں نازیبا گفتگو کی تھی جب کہ اُن کی اہلیہ کے حوالے سے بھی تبصرہ کیا تھا جس پر مختلف حلقے تنقید کر رہے ہیں۔
سینئر صحافی اور ایڈیٹر مبشر زیدی ان واقعات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "اگر اخلاقیات کے پیمانے پر رکھیں تو یہ لغو اور غیر پارلیمانی زبان ہے۔ کیوں کہ سیاسی تقسیم یا سیاست میں اختلافِ رائے اس قدر شدید ہوگیا ہے کہ اگر سیاسی قائدین کو تنقید کا یا کوئی موقع نہیں ملتا تو وہ دوسری جماعت کی خواتین کو نشانہ بناتے ہیں۔"
وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں خواتین سافٹ ٹارگٹ ہیں۔ ان کے بقول "خواتین پر تنقید کرنے سے معاشرے کی مردانگی ابھر کے سامنے آتی ہے۔"
سعدیہ احمد آسٹریلیا کی کرٹن یونیورسٹی میں پاکستان میں خواتین رہنماؤں کے خلاف صنفی ہراسانی کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کر رہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ صنفی ہراسانی کے پیچھے تحریک کی وجہ معاشرے میں قائم پدرشاہی سماجی قاعدے ہیں جو معاشرے میں صنفی حقوق و فرائض اور کردار کا تعین کرتے ہیں۔
انہوں نے مصنفہ شنیلہ کھوجہ مولجی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستانی عورت کا کردار ایسا ہے کہ وہ پڑھی لکھی تو ہیں لیکن اپنی نجی زندگی اور گھریلو ذمے داریوں کو عوامی خدمات پر فوقیت دیتی ہے۔
شنیلہ کھوجہ امریکہ کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ اُن کی جینڈر اسٹیڈیز، اسلامی معاشرت اور پاکستانی سوسائٹی میں خواتین کے کردار پر رپورٹس آتی رہتی ہیں۔
سعدیہ احمد کا کہنا تھا کہ ایسے میں مردوں کا عورتوں پر صنفی لحاظ سے نازیبا تبصرے کرنے کا مقصد دراصل ان خواتین کو ان کی معاشرے میں اصل جگہ کی یاددہانی کروانا ہوتا ہے۔
سعدیہ کہتی ہیں کہ جب طاقت ور مرد کسی خاتون کے بارے میں عورت مخالف تبصرے کرتے ہیں تو یہ باقاعدہ منظم ہراسانی کی صورت اختیار کر لیتا ہے جہاں ان کے فالوورز بھی وہی راستہ اختیار کرتے ہیں جو قائدین نے چنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ باقاعدہ نیٹ ورک کی صورت میں ہراسانی کرنے والے افراد اسے اخلاقی طور پر درست سمجھتے ہیں۔
مبشر زیدی کہتے ہیں کہ جس وقت ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شاید اس سے زیادہ نازیبا جملہ کوئی نہیں بولے گا، اس سے اگلے ہی دن کسی نہ کسی جماعت کے رہنما کا ایسا بیان آجاتا ہے جس سے بحیثیت پاکستانی ہم مزید شرمسار ہوتے ہیں۔
انہوں نے گزشتہ ادوار کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ چاہے کوئی بھی جماعت ہو، عمران خان صاحب ہوں یا جنرل مشرف اور مسلم لیگ (ن)، آج کل ہر طرح کی زبان استعمال ہو رہی ہے۔
ان کے بقول "ایوان کے اندر بھی جس طرح کی تقاریر کی گئی ہیں اس کے بعد مجھے یہ لگتا ہے کہ جسے ایک 'نیو نارمل' کہتے ہیں وہ بن چکا ہے، اب سوشل میڈیا سے شروع ہو کر یہ چیز پارلیمان تک آگئی ہے۔"
اینکر ابصا کومل نے پارلیمان میں خواتین سے متعلق نازیبا زبان کے استعمال کو تشویش ناک قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسی صورت میں دکھ اس بات کا ہوتا ہے کہ پارلیمان اور سیاسی جماعتوں میں خواتین رہنما ایسے رویے کے خلاف مضبوط آواز بن کر نہیں ابھرتی ہیں۔
انہوں نے اس ضرورت پر زور دیا کہ خواتین اراکینِ پارلیمنٹ کو فلور آف دی ہاؤس پر جہاں عورت مخالف بیانات دیے گئے ہیں وہیں اس کی مخالفت کرنی چاہیے۔