رسائی کے لنکس

بھارت کو آئندہ 25 برس میں ترقی یافتہ ملک بنائیں گے: وزیرِ اعظم مودی


وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اپنے ایک گھنٹے 23 منٹ کے خطاب میں اشاروں کنایوں میں حزبِ اختلاف پر تنقید کی اور عوام سے مبینہ بد عنوان سیاسی رہنماؤں سے ہمدردی نہ رکھنے کی اپیل کی۔
وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اپنے ایک گھنٹے 23 منٹ کے خطاب میں اشاروں کنایوں میں حزبِ اختلاف پر تنقید کی اور عوام سے مبینہ بد عنوان سیاسی رہنماؤں سے ہمدردی نہ رکھنے کی اپیل کی۔

وزیرِ اعظم نریندر مودی نے یومِ آزادی پر تاریخی لال قلعے کی فصیل سے قوم سے خطاب کرتے ہوئے آئندہ 25 برس میں یعنی آزادی کے 100 برس مکمل ہونے پر بھارت کو ترقی یافتہ ملک بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

نریندر مودی نے نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ اس بڑے ہدف کو پانے کے لیے اپنے بہترین سال ملک کے لیے وقف کر دیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اشارتاََ حزبِ اختلاف پر تنقید بھی کی۔

انہوں نے لال قلعے سے نویں مرتبہ خطاب کرتے ہوئے پانچ عہد بھی کیے، جن میں بھارت کو ترقی یافتہ ملک بنانے کے بڑے عزم کے ساتھ آگے بڑھنا، غلامانہ ذہنیت کو ترک کرنا، اپنی وراثت پر فخر کرنا، اتحاد و یکجہتی قائم رکھنا اور تمام شہریوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرانا شامل تھے۔

مودی نے بھارت کو ’مادرِ جمہوریت‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس نے جس طرح کرونا وبا سے نمٹنے میں کامیابی حاصل کی، اس کے پیشِ نظر آج دنیا اپنے مسائل کے حل کے لیے ان کی طرف دیکھ رہی ہے۔ انہوں نے 2014 کے بعد سے اب تک حکومت کی مختلف کامیابیوں کا بھی ذکر کیا۔

انہوں نے اس موقعے پر دیگر طبقات کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ قبائلی عوام نے بھی اس ملک کو آزاد کرانے میں قربانیاں دی ہیں۔

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ وزیرِ اعظم نے خواتین اور قبائلی عوام کو اس لیے یاد کیا تاکہ آئندہ چند ماہ میں مختلف ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کے لیے ووٹوں کے حصول کا راستہ ہموار کیا جا سکے۔

یاد رہے کہ جن ریاستوں میں انتخابات ہونے والے ہیں ان میں قبائلی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔

وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اپنے ایک گھنٹے 23 منٹ کے خطاب میں اشاروں کنایوں میں حزبِ اختلاف پر تنقید کی اور عوام سے مبینہ بد عنوان سیاسی رہنماؤں سے ہمدردی نہ رکھنے کی اپیل کی۔

انہوں نے بد عنوانی اور اقربا پروری کو ملک کے لیے سب سے بڑا چیلنج قرار دیتے ہوئے کہا کہ بد عنوانی ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ ان کے بقول ایک طرف لوگوں کے پاس رہنے کے لیے جگہ نہیں ہے اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں، جن کے لیے بدعنوانی سے کمایا ہوا مال رکھنے کی بھی جگہ نہیں ہے۔

انہوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لوگ ان لوگوں سے ہمدردی کیوں رکھتے ہیں، جو بدعنوانی کے جرم میں سزا یافتہ ہیں یا جیلوں میں بند ہیں۔

مبصرین کے خیال میں ان کا یہ بیان دراصل کانگریس، راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) اور ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کے ان رہنماؤں پر حملہ ہے جن کے خلاف مرکزی تحقیقاتی ادارے جانچ کر رہے ہیں، یا جن کو بدعنوانی کے الزام میں گرفتار کیا جا چکا ہے۔

اس پر حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے اپنے بیان میں حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے مہاتما گاندھی اور پنڈت نہرو کی قربانیوں کو کمتر دکھانے اور ان کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

کانگریس کے سینئر رہنما راہل گاندھی نے وزیرِ اعظم کے سیاست میں اقربا پروری کے الزام پر ردِعمل ظاہر کرنے سے انکار کیا۔

وزیرِ اعظم نریندر مودی اپنے اکثر بیانات میں سیاست میں خاندانی راج کی مخالفت کرتے ہوئے سونیا گاندھی اور راہل گاندھی پر تنقید کرتے رہے ہیں۔

کانگریس نے کرناٹک حکومت کی جانب سے اخبارات کے لیے جاری کیے جانے والے یومِ آزادی کے اشتہار میں آزادی کی جدوجہد میں صفِ اول کے رہنماؤں میں شامل پہلے وزیرِ اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کو شامل نہ کیے جانے پر تنقید کی اور اسے ناقابلِ قبول قرار دیا۔

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ایک روز قبل ایک ویڈیو جاری کی گئی تھی جس میں ملک کی تقسیم کے لیے پنڈت نہرو کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ اس پر کانگریس نے شدید اعتراض کیا اور پارٹی کے ترجمان جے رام رمیش نے کہا کہ بی جے پی مبینہ طور پر ملک کو تقسیم کرنے کی سازش کر رہی ہے۔

وزیرِ اعظم مودی کے خطاب پر ردِعمل میں کانگریس کے سینئر رہنما پون کھیڑا نے کہا کہ یہ موقع سیاسی معاملات کو اٹھانے کا نہیں ہوتا لیکن وزیرِ اعظم مودی نے اس روایت کو بدل دیا ہے۔

انہوں نے وزیر اعظم کے بیان پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پہلے جو وعدے کیے تھے، جیسے کہ ہر شخص کو 15، 15 لاکھ روپے دینے کا، ان کا کیا ہوا۔

انہوں نے اقربا پروری کے وزیرِ اعظم کے الزام کے بارے میں کہا کہ ان کا خیال ہے کہ یہ بی جے پی کا اندرونی معاملہ ہے۔ اس کی وضاحت مودی ہی کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے وزرا پر تنقید کیوں کر رہے ہیں۔

مبصرین نے وزیرِ اعظم کے خطاب پر ملا جلا ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔ متعدد تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس خطاب میں سوا اس کے کوئی نئی بات نہیں ہے کہ آئندہ 25 برس میں بھارت کو ترقی یافتہ ملک بنانا ہے۔ مبصرین یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ ان حالات میں، جب ملک کی اقتصادی حالت انتہائی خراب ہے، بھارت کیسے ترقی یافتہ بن پائے گا۔

سینئر تجزیہ کار ہرتوش بل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وزیرِ اعظم مودی کو وعدے کرنے میں مہارت حاصل ہے۔ وہ پہلے بھی بہت سے وعدے کر چکے ہیں جو پورے نہیں ہوئے۔ اس لیے ان کے وعدوں پر دھیان دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ خود اس معاملے میں اب اپنا وقت برباد نہیں کرتے۔

سینئر تجزیہ کار اجے کمار اس سے متفق نہیں ہیں کہ وزیرِ اعظم کے وعدے پورے نہیں ہوئے۔ انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت بے گھروں کو گھر کی سہولت فراہم کرنے میں نہ صرف سنجیدہ ہے بلکہ بڑی تعداد میں لوگوں کو گھر ملے ہیں۔

ان کے مطابق وزیرِ اعظم نے رواں سال اپریل میں سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں بتایا تھا کہ ’پردھان منتری آواس یوجنا‘ کے تحت اب تک تین کروڑ سے زائد پختہ مکانوں کی تعمیر کی جا چکی ہے۔ بنیادی سہولتوں سے لیس ان مکانوں کی وجہ سے خواتین کو با اختیار بنایا گیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیرِ زراعت نریندر سنگھ تومر نے کانگریس کے رکن پارلیمنٹ منیش تیواری کے سوال کے جواب میں پارلیمنٹ میں بتایا تھا کہ کسانوں کی آمدنی دوگنا ہو گئی ہے جب کہ مرکزی وزیر جیوترادتیہ سندھیا نے رواں سال کے فروری میں کلکتہ میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ مودی حکومت اپنے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور انہوں نے بہت سے وعدے پورے کر دیے ہیں۔

ان کے مطابق حکومت نے ’کسان سمان ندھی‘ کے تحت 60 ہزار کروڑ روپے کسانوں کے اکاونٹ میں برارہ راست بھیجے ہیں۔

اجے کمار کا کہنا تھا کہ کرونا وبا کے دوران معیشت کو کافی نقصان پہنچا تھا جس کی وجہ سے اس کے ترقیاتی منصوبوں پر اثر پڑا لیکن اب ایک بار پھر ان منصوبوں پر تیزی سے کام ہو رہا ہے۔

ان کے خیال میں بلٹ ٹرین منصوبے پر بھی تیزی سے عمل درآمد ہو رہا ہے۔ مہاراشٹرا میں نئی حکومت کے قیام کے بعد ممبئی سے احمد آباد کے درمیان چلنے والی تیز رفتار ٹرین منصوبے پر بھی تیزی سے کام جاری ہے۔

دیگر تجزیہ کاروں کے مطابق سابق وزرائے اعظم یومِ آزادی پر خطاب میں حکومت کی ایک سال کی کارکردگی بتاتے تھے جب کہ دوسری طرف وہ آئندہ ایک سال کے لیے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان بھی کرتے تھے۔ نریندر مودی نے بھی اس سے قبل ایسے اعلانات کیے تھے البتہ 75ویں یومِ آزادی پر خطاب میں ایسا کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔

سینئر تجزیہ کار انیس درانی کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم مودی 25 برس میں بھارت کو ترقی یافتہ ملک بنانے کی بات کر رہے ہیں۔ یعنی اب انہوں نے نیا وعدہ کیا ہے۔ البتہ یہ وعدہ طویل مدتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب ان سے کوئی اس وعدے کے بارے میں سوال نہیں کر پائے گا۔

انہو ں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ انہوں نے اس سے قبل لال قلعے پر تقریروں میں 2022 تک کسانوں کی آمدنی دوگنا کرنے اور ہر شخص کو گھر دینے کا وعدہ کیا تھا، البتہ وہ وعدے پورے نہیں ہوئے۔

ہم نے ہجرت کیوں نہیں کی؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:10:31 0:00

ان کے خیال میں وزیرِ اعظم نے لال قلعے کی فصیل سے تقریر کرتے ہوئے اپوزیشن پر جس طرح حملہ کیا وہ مناسب نہیں تھا۔ یومِ آزادی کا موقع اپنی پارٹی کی سیاست کو آگے بڑھانے کے لیے نہیں ہوتا۔

انیس درانی نے بعض تجزیہ کاروں کی اس رائے سے اتفاق کیا کہ وزیرِ اعظم مودی نے نہ تو پڑوسی ممالک سے رشتوں کے بارے میں کوئی بات کہی اور نہ ہی کسی عالمی مسئلے پر اپنی رائے دی۔

ان کے خیال میں یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے کیوں کہ موجودہ حکومت پڑوسی ممالک کے ساتھ باہمی رشتوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتی البتہ انہیں کم از کم بین الاقوامی معاملات پر اظہارِ خیال کرنا چاہیے تھا۔

وزیرِ اعظم کے خطاب پر سوشل میڈیا میں بھی تنقید ہو رہی ہے۔ متعدد صارفین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے اس سے قبل لال قلعے کے خطاب میں 2022 تک کا ہدف مقرر کیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ اس وقت تک کسانوں کی آمدنی دو گنا ہو جائے گی اور ہر شہری کو گھر مل جائے گا۔ بلٹ ٹرین چلانے اور اسمارٹ شہر بنانے کا بھی اعلان کیا گیا تھا لیکن یہ وعدے پورے نہیں ہوئے اور اب 2047 تک کا ہدف مقرر کر دیا گیا ہے۔

ادھر وزیرِ داخلہ امت شاہ نے وزیرِ اعظم مودی کے خطاب کی تعریف کی اور عوام سے اپیل کی کہ وہ ملک کی آزادی کے 100 سال پورے ہونے تک ملک کو ترقی یافتہ بنانے کے لیے اپنی بہترین کوششیں بروئے کار لائیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG