|
لاہور — نیدرلینڈز (ہالینڈ) کی مقامی عدالت نے پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعت تحریکِ لیبک پاکستان (ٹی ایل پی) کے سربراہ سعد حسین رضوی کے خلاف مقدمے کی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔
مقدمے میں کہا گیا ہے کہ ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی نے لوگوں کو ہالینڈ کے شہری گیرٹ ولڈرز کے قتل پر اُکسایا ہے۔ اس مقدمے میں ماضی میں ٹی ایل پی کا حصہ رہنے والے اشرف جلالی کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔
پیر کو نیدرلینڈز کی ایک عدالت میں ہونے والی سماعت میں سعد رضوی اور اشرف جلالی پیش نہیں ہوئے اور نہ ہی کسی وکیل نے اِن دونوں کی جانب سے مقدمے کی پیروی کی ہے۔
دورانِ سماعت پراسیکوشن نے اشرف جلالی کو اپنی جماعت کے حامیوں کو گیرٹ ولڈرز کے قتل پر اکسانے کے الزام میں 14 سال قید اور قتل کی ترغیب دینے پر سعد رضوی کو چھ سال قید کی سزا دینے مطالبہ ہے۔
سال 2023 میں ہالینڈ کی مقامی عدالت نے گیرٹ ولڈرز کے قتل پر اُکسانے کے الزام میں پاکستانی شہری خالد لطیف کو 12 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ خالد لطیف نے گیرٹ ولڈرز کے قتل پر 30 لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا تھا۔
گیرٹ ولڈرز نیدرلینڈزکے انتہائی دائیں بازو کے سیاست دان ہیں جو اپنے اسلام مخالف بیانات کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔
ولڈرز نے 2018 میں پیغمبرِ اسلام کے خاکوں کا مقابلہ کرانے کا اعلان کیا تھا۔ جس کے بعد پاکستان میں شدید احتجاج اور گیرٹ کو قتل کرنے کی دھمکیاں دینے پر یہ مقابلہ منسوخ کر دیا گیا تھا۔
ہالینڈ کی عدالت میں زیرِ سماعت مقدمہ پر ٹی ایل پی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ہالینڈ کی عدالت میں گیرٹ ولڈرز کے وکیل کی طرف سے پیش کیا گیا بیان جھوٹ پر مبنی اور خلافِ قانون ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ سزا تو گیرٹ ولڈرز کو ملنی چاہیے جس نے پیغمبرِ اسلام کی شان میں گستاخی کی ہے۔
ترجمان ٹی ایل پی کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کی عدالت میں گیرٹ ولڈرز کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کررہے ہیں۔ ضرورت پڑی تو عالمی عدالت بھی جائیں گے۔
تحریک لبیک پاکستان ایک سخت گیر مذہبی سیاسی جماعت سمجھی جاتی ہے جس پر ماضی میں بھی تشدد پر اکسانے کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔
گزشتہ ماہ ٹی ایل پی کے نائب امیر نے احمدی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک شخص مبارک ثانی کی ضمانت سے متعلق فیصلے پر ردعمل میں پاکستان کے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو قتل کرنے پر انعام کا اعلان کیا تھا۔
اس اعلان کے بعد وفاق اور پنجاب کی صوبائی حکومت نے اس بیان کی مذمت کی تھی اور کارروائی کا عندیہ دیا تھا۔ تاہم پولیس تاحال ٹی ایل پی کے مذکورہ رہنما کو گرفتار نہیں کر سکی ہے۔
نیدرلینڈز میں شروع ہونے والی عدالتی کارروائی کے بعد ٹی ایل پی کی قیادت کو پاکستان میں بھی مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے؟ اس بارے میں قانونی اور سفارتی امور کے ماہرین کی رائے جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔
مقدمے کی کارروائی کیسے آگے بڑھے گی؟
قانونی ماہرین کے نزدیک چوں کہ پاکستان اور نیدرلینڈز کے درمیان قیدیوں یا ملزمان کے تبادلے کا کوئی معاہدہ نہیں ہے اس لیے اس مقدمے کی کارروائی سے اس میں نامزد ملزمان کو کسی قانونی پیچیدگی درپیش نہیں ہوگی۔
ماہرِ قانون اور سپریم کورٹ کے وکیل خالد اسحاق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستانی قوانین میں ایسے غیر ملکی شہریوں کے خلاف مقدمہ چلانے کی گنجائش نہیں جو ملک میں موجود نہ ہو اور پاکستان کی عدالتی حدود میں نہ ہو۔
خالد اسحاق کا کہنا تھا کہ ہالینڈ میں گزشتہ چند برسوں میں ہونے والی قانونی ترامیم کے بعد دنیا کے کسی بھی خطے میں موجود کسی بھی ملک کے ایسے شہری کے خلاف مقدمہ چلایا جاسکتا ہے جس نے ہالینڈ کے قوانین کی خلاف ورزی کی ہو۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ اِن ترامیم کے بعد ہی ہالینڈ کی حکومت نے سعد حسین رضوی اور دیگر افراد کے خلاف مقدمہ شروع کیا ہے جسے وہ اپنے قانون کے مطابق چلا رہے ہیں۔
برطانیہ میں مقیم قانونی ماہر سولسٹر امجد ملک کے مطابق برطانیہ اور یورپی ممالک میں کسی دوسرے ملک میں بیٹھ کر اپنے شہریوں کے خلاف تشدد پر اکسانے والوں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی روایت موجود ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ ایسا مقدمہ کسی بھی یورپی شہری کو جان سے مار دینے، اقدامِ قتل، قتل کرنے یا کسی بھی قسم کے تشدد پر اُکسانے کے خلاف درج کیا جا سکتا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ ایسے مقدمات میں اگر کسی بھی ملک کا آپس میں حوالگیِ ملزمان کا کوئی معاہدہ نہیں ہے تو ایسی صورت میں ملزم کو پیش کیے بغیر مقدمہ چلانا مشکل ہو گا۔
اُنہوں نے مزید کہا اگر کسی بھی ملزم کے خلاف عدالت سے غیر حاضری کے دوران مقدمہ چلایا جاتا ہے تو انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر سعد حسین رضوی چاہیں تو نیدرلینڈز میں کسی بھی وکیل کے توسط سے اِس عدالتی کارروائی پر اعتراض اُٹھا سکتے ہیں۔
انہوں ںے بتایا کہ اگر سعد رضوی کے پاس نیدرلینڈز میں کوئی وکیل نہ ہو تو وہاں کی ریاست خود اِنہیں وکیل دینے کی پابند ہے۔
کیا سعد رضوی کو ہالینڈ کے حوالے کیا جا سکتا ہے؟
قانونی ماہر خالد اسحاق نے بتایا کہ پاکستان کا ہالینڈ کی حکومت کے ساتھ ملزمان کی حوالگی کا معاہد نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے سعد حسین رضوی کو ہالینڈ کی حکومت کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔
سابق سفیر عاقل ندیم کے مطابق ملزمان کی حوالگی کا معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں کسی شخص کو دوسرے ملک کے حوالے کرنے کے لیے انتہائی ٹھوس شواہد درکار ہوں گے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسے کیسز میں دیکھا جاتا ہے کہ آیا ملزم نے کسی شخص کو کیسے اُکسایا؟ کیا ملزم نے واقعی کسی کو اُکسایا ہے یا ایسا کرنے کے لیے اُس نے کسی کو کوئی رقم ادا کی ہے۔ جس کے بعد ہی کوئی مضبوط کیس بن سکتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر تو اِس کیس میں صرف زبانی بیانات ہی کو بنیاد بنایا گیا ہے تو سعد حسین رضوی کو سزا دینا مشکل ہو گا۔
کیا ہالینڈ کا فیصلہ پاکستان میں نافذ ہو سکتا ہے؟
نیدرلینڈز کی عدالت میں سعد رضوی کے خلاف مقدمے میں سزا ہونے کی صورت میں کیا اس فیصلے پر پاکستان میں عمل درآمد ہوسکتا ہے؟ اس بارے میں قانونی اور سفارتی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے لیے بھی دونوں ممالک میں قانونی کارروائی سے متعلق کوئی معاہدہ ہونا ضروری ہے۔
سپریم کورٹ کے وکیل خالد اسحاق کے مطابق اس کے لیے دونوں ریاستوں کے درمیان ریسی پروکل معاہدہ ہونا ضروری ہے۔ ایسا معاہدہ دونوں ملک مل کر کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان اور برطانیہ ریسی پروکل ریاستیں ہیں۔ اس لیے اگر کسی شخص کے خلاف برطانیہ کی عدالت کوئی فیصلہ دیتی ہے تو اسے پاکستان میں بھی نافذ کیا جا سکتا ہے۔
خالد اسحاق کے مطابق ہالینڈ کی عدالت کا فیصلہ پاکستان میں لاگو نہیں ہو گا اور سعد رضوی کے خلاف پاکستان میں بھی کوئی قانونی کارروائی شروع نہیں کی جاسکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہالینڈ یورپی یونین کا حصہ ہے اور وہاں کی عدالت اگر سعد رضوی کو سزا دے دیتی ہے تو اِن کی جماعت کو یورپ میں سرگرمیوں یا فنڈز وغیرہ جمع کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
فورم