پاکستان میں نو مئی کو سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی گرفتاری اور عسکری تنصیبات پر حملوں کے بعد سیاسی منظر نامہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے درجنوں رہنما نہ صرف پارٹی بلکہ سیاست سے بھی دست برداری کا اعلان کر چکے ہیں۔ ایسے میں عمران خان کا سیاسی مستقبل بھی غیر یقینی نظر آتا ہے۔
عمران خان نے ملک کے مقتدر حلقوں کو مذاکرات کی بھی پیش کش کی ہے، تاہم اس حوالے سے تاحال کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔
ایسے میں پاکستان کے سیاسی اور عوامی حلقوں میں یہ سوال اُٹھائے جا رہے ہیں کہ آٹھ مئی تک ملک کی سیاست پر گرفت رکھنے والے عمران خان کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا؟ کیا عمران خان پارٹی چھوڑنے والوں کا خلا نئے لوگوں سے پر کر سکیں گے؟ کیا نواز شریف کی طرح عمران خان کو بھی ایک اور موقع مل پائے گا؟
اس بارے میں وائس آف امریکہ نے ملکی سیاست پر گہری نگاہ رکھنے والے سیاسی تجزیہ کاروں سے بات کی ہے۔
'اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کے لیے طویل جدوجہد درکار ہے'
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ عمران خان کے پاس دو آپشنز ہیں۔ ایک آپشن تو یہ ہے کہ وہ اپنی اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست جاری رکھیں کیوں کہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ووٹ بینک تو ملک میں موجود ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ اس کے لیے عمران خان کو ایک طویل جدوجہد کرنا ہو گی جس میں اسٹیبلشمنٹ اُن کے خلاف چلے گی جب کہ باقی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل جائیں گی۔ لہٰذا عمران خان کو اقتدار اتنی جلدی نہیں ملے گا۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ عمران خان کے پاس دوسرا آپشن یہ ہے کہ وہ اپنی پالیسی پر نظرِ ثانی کریں اور جس طرح وہ 2018 کے الیکشن سے قبل اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہو گئے تھے، وہی پالیسی اپنائیں ۔
اُن کے بقول اب یہ فیصلہ عمران خان کو ہی کرنا ہے کہ وہ ان دونوں میں سے کون سی راہ اختیار کریں گے۔
'عمران خان کا ووٹ بینک اب بھی موجود ہے'
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اُنہیں لگتا ہے کہ عمران خان کا ووٹ بینک اب بھی موجود ہے، لیکن اگر انہیں اقتدار حاصل کرنا ہے تو پھر انہیں الیکٹیبلز کا ساتھ درکار ہو گا اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہاتھ بھی ملانا ہو گا۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ چند برس قبل نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان دُوریاں اس نہج پر پہنچ چکی تھیں کہ مسلم لیگ (ن) کا دوبارہ اقتدار میں آنا ناممکن دکھائی دے رہا تھا، لیکن اچانک حالات بدل گئے۔
اُن کے بقول اسی طرح عمران خان بھی ایک سیاسی حقیقت ہیں اور اُن کا ووٹ بینک ہے۔ لہٰذا جب ملٹری کمان تبدیل ہوتی ہے تو پھر نئے حالات جنم لیتے ہیں اور ایسے میں عمران خان کے لیے بھی راستہ ہموار ہو سکتا ہے۔
'عمران خان کو تنہا کرنے کی کوشش بظاہر کامیاب ہو رہی ہے'
سینئر صحافی اور تجزیہ کار راشد رحمٰن کہتے ہیں کہ بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ عمران خان کے نیچے سے زمین کاٹ کر اُنہیں اکیلا کرنے کی کوشش ہو رہی ہے جس میں بظاہر اسٹیبلشمنٹ کو کامیابی مل رہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے پاکستان کی سیاست میں فائدہ اور نقصان دیکھا جاتا ہے۔ لہٰذا بیشتر سیاسی رہنما ہوا کا رُخ دیکھ کر فیصلے کرتے ہیں۔
اُن کے بقول اسٹیبلشمنٹ کے پاس بہت سے طریقے ہیں جس کے ذریعے وہ اپنی مرضی سے فیصلے کر سکتی ہے اور کروا رہی ہے۔
راشد رحمٰن کہتے ہیں کہ عمران خان کے لیے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ 'الیکٹیبلز' اُن کا ساتھ چھوڑ کر جہانگیر ترین گروپ میں جا رہے ہیں یا کوئی اور سیاسی ٹھکانہ ڈھونڈ رہے ہیں۔
اُن کے بقول 2018 کے الیکشن سے قبل جہانگیر ترین ہی تھے جو 'الیکٹیبلز' کو پی ٹی آئی میں لائے تھے، لیکن اب وہ الیکٹیبلز عمران خان کے ساتھ نہیں ہیں۔ لہٰذا اگر الیکشن ہوئے تو پی ٹی آئی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سینئر سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ عمران کی مشکلات تو بہت بڑھ گئی ہیں، لیکن اُنہیں چاہیے کہ جو لوگ اُن کے پاس بچ گئے ہیں انہیں اپنے ساتھ رکھنے کی کوشش کریں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان کو کوئی نہ کوئی راستہ تلاش کرنا ہو گا۔
اُن کے بقول ایک آپشن تو یہ ہے کہ عمران خان جارحانہ حکمتِ عملی ترک کرتے ہوئے اب دفاعی پوزیشن لیں اور گفت و شنید کی کوشش کریں۔
کیا اسٹیبلشمنٹ سے اب مذاکرات ممکن ہیں؟
ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ اگر معاملات کو آگے بڑھانا ہے تو پھر اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کرنے ہی پڑیں گے۔ اسٹیبلشمنٹ کو بھی یہ ادراک ہونا چاہیے کہ عمران خان ایک سیاسی حقیقت ہیں اور انہیں اتنی آسانی سے سیاست سے بے دخل نہیں کیا جا سکتا۔
اُن کے بقول موجودہ صورتِ حال زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی، لا محالہ سیاسی قوتوں اور مقتدر حلقوں کو لچک کا مظاہرہ کر کے آگے بڑھنے کا کوئی راستہ تلاش کرنا ہو گا، ورنہ اندرونی خلفشار اسی طرح رہے گا۔
کیا عمران خان پر 'کراس' لگ گیا ہے؟
ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست کے بارے میں مستقبل کے حوالے سے پیش گوئی کرنا بہت مشکل ہے۔
اُن کے بقول صورتِ حال اس وقت واضح ہو گی جب انتخابات کا اعلان ہو گا اور اس وقت نئے چیلنجز سامنے آئیں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ ماضی میں بھی مقبول سیاسی جماعتوں پر الیکشن سے پہلے دباؤ ڈالا جاتا رہا ہے اور نئی پارٹیاں بنائی جاتی رہی ہیں، اس سے وقتی طور پر تو مسئلہ حل ہو جاتا ہے، لیکن یہ طویل المدتی حل نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر حسن عسکری کے مطابق اگر الیکشن ہوتا ہے اور عمران خان نئے لوگوں کو ٹکٹ دیتے ہیں اور اپنی مقبولیت کی بنا پر وہ میدان مار لیتے ہیں تو پھر ان کے 'کم بیک' کے امکانات موجود ہیں۔
اُن کے بقول نو مئی کے واقعات کے بعد جس طرح پی ٹی آئی کے رہنما پارٹی چھوڑ رہے ہیں اور پارٹی مسلسل سکڑ رہی ہے اس طرح فی الحال یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ عمران خان کے چاہنے والے بھی متنفر ہوئے ہیں یا نہیں، اس کا ااندازہ بہرحال انتخابات میں ہی ہو گا۔