رسائی کے لنکس

کشن گنگا ڈیم کیس؛ عالمی ثالثی عدالت میں بھارت کا اعتراض مسترد


بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں دریائے سندھ کا ایک منظر۔ بھارت کشمیر سے نکلنے والے ان دریاؤں پر ڈیم بنا رہا ہے جن کا پانی سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت اور پاکستان میں تقسیم ہوتا ہے۔ فائل فوٹو
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں دریائے سندھ کا ایک منظر۔ بھارت کشمیر سے نکلنے والے ان دریاؤں پر ڈیم بنا رہا ہے جن کا پانی سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت اور پاکستان میں تقسیم ہوتا ہے۔ فائل فوٹو

عالمی ثالثی عدالت میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشن گنگا ڈیم کیس کے تنازع پر عالمی عدالت نے بھارت کا پرمیننٹ کورٹ آف آربیٹریشن کے دائرہ اختیار پر اعتراض مسترد کر دیا۔

بھارتی دفترخارجہ نے اس بارے میں عالمی ثالثی عدالت کو نام نہاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ نام نہاد ثالثی عدالت کا آئین سندھ طاس معاہدے کی شقوں کے منافی ہے۔

اس بارے میں پاکستانی دفترخارجہ کا کہنا ہے کہ ثالثی عدالت نے اس معاملہ کی اہلیت کو برقرار رکھا ہے اور یہ طے کیا ہے کہ اب وہ تنازعات کے مسائل کو حل کرنے کے لیے آگے بڑھے گی۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ سندھ طاس معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کا ایک بنیادی معاہدہ ہے۔ پاکستان تنازعات کے حل کے طریقہ کار سمیت معاہدے کے نفاذ کے لیے پوری طرح پرعزم ہے۔ ہمیں امید ہے کہ بھارت بھی نیک نیتی کے ساتھ معاہدے پر عمل درآمد کرے گا۔

سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے بین الاقوامی فورم ہیگ میں قائم پرمننٹ کورٹ آف آربٹریشن (پی سی اے) نے پاکستان کی جانب سے دی گئی درخواست پر پاکستانی مؤقف قبول کرتے ہوئے بھارتی اعتراضات مسترد کردیے۔

پی سی اے کی جانب سے پاکستانی مؤقف کہ پرمننٹ کورٹ آف آربٹریشن کے پاس، بھارت کی جانب سے کشن گنگا اور رتلے ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹس کے ڈیزائن کی تبدیلی کے حوالے سے، بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازع کا تعین کرنے کا اختیار ہے، کو قبول کرلیا گیا ہے۔

بھارتی اعتراض مسترد کیے جانے کے بعد بین الاقوامی عدالت پاکستان کے اس دعوے کی میرٹ پر سماعت شروع کرے گی کہ مذکورہ بالا دونوں منصوبوں کے ڈیزائن 1961ء کے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہیں۔

اس معاملہ میں پاکستان کی طرف سے ایڈووکیٹ زوہیر وحید اور ایڈووکیٹ لینا نشتر سمیت بیرسٹر احمد عرفان اسلم نے پی اے سی میں پاکستان کے ایجنٹ کے طور پر کام کیا ہے۔ جب کہ اٹارنی جنرل آفس بھی اس بارے میں عدالت میں پیش ہوتا رہا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی پر بین الاقوامی فورم پر اپنی شکایت درج کروائی تھی۔

بین الاقوامی فورم پی سی اے کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے پاکستان کی درخواست کو قابلِ سماعت قرار دے دیا گیا ہے، جس میں پاکستان کا مؤقف ہے کہ بھارت سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشن گنگا اور رتلے ڈیم تعمیر کر رہا ہے۔

پاکستان کی درخواست پر بھارتی اعتراضات کے حوالے سے پی سی اے نے 13 مئی کو اپنا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

بھارت نے ثالثی عدالت کو سندھ طاس معاہدے کی شقوں کے منافی قرار دے دیا

بھارتی دفترخارجہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ہم نے ثالثی کی مستقل عدالت کی طرف سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز کو دیکھا ہے جس میں ذکر کیا گیا ہے کہ غیر قانونی طور پر قائم نام نہاد ثالثی عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ اس کے پاس کشن گنگا اور رتلے پن بجلی منصوبوں سے متعلق معاملات پر غور کرنے کی 'اہلیت' ہے۔

بھارتی ترجمان کے مطابق بھارت کا مستقل اور اصولی موقف رہا ہے کہ نام نہاد ثالثی عدالت کا آئین، سندھ طاس معاہدے کی شقوں کے منافی ہے۔

بھارتی ترجمان کا کہنا تھا کہ ایک غیر جانبدار ماہر پہلے ہی کشن گنگا اور رتلے پراجیکٹس سے متعلق اختلافات کا شکار ہے۔ ایسے موقع پر صرف غیر جانبدار ماہرین کی کارروائی ہی معاہدے کے مطابق کارروائی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان معاہدہ کے مطابق ایک جیسے مسائل کے حل کے لیے متوازی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔

بھارت معاہدے کے مطابق غیر جانبدار ماہرین کی کارروائیوں میں حصہ لے رہا ہے۔ غیر جانبدار ماہرین کا آخری اجلاس 27-28 فروری 2023 کو دی ہیگ میں ہوا تھا اور اب غیر جانبدار ماہرین کے عمل کا اگلا اجلاس ستمبر 2023 میں ہونے والا ہے۔

بھارتی دفترخارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ بھارت کو غیر قانونی اور متوازی کارروائیوں کو تسلیم کرنے یا اس میں حصہ لینے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا جس کا اس معاہدے میں تصور نہیں کیا گیا ہے۔بھارتی حکومت سندھ طاس معاہدے کی دفعہ XII (3) کے تحت ترمیم کے حوالے سے حکومت پاکستان کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے۔

پاکستان کے دفتر خارجہ کا موقف

پاکستان کے دفترخارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت پاکستان کو ثالثی کی عدالت کے ایوارڈ سے نوازا گیا ہے، جو کشن گنگا اور رتلے ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹس سے متعلق پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات پر اپنی اہلیت اور آگے بڑھنے کا راستہ بتا رہا ہے۔ یہ فیصلہ سندھ طاس معاہدے کی تشریح اور اطلاق کے وسیع تر سوالات کے جواب دے رہا ہے۔

لاہور کے قریب بہنے والے دریائے راوی کا ایک منظر۔ بھارت کی جانب سے راوی کا پانی روکے جانے کے بعد دریا کا زیادہ تر حصہ خشک پڑا ہے۔ فائل فوٹو
لاہور کے قریب بہنے والے دریائے راوی کا ایک منظر۔ بھارت کی جانب سے راوی کا پانی روکے جانے کے بعد دریا کا زیادہ تر حصہ خشک پڑا ہے۔ فائل فوٹو

ترجمان کے مطابق عدالت نے اس معاملہ کی اہلیت کو برقرار رکھا ہے اور یہ طے کیا ہے کہ اب وہ تنازعات کے مسائل کو حل کرنے کے لیے آگے بڑھے گی۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ سندھ طاس معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کا ایک بنیادی معاہدہ ہے۔ پاکستان تنازعات کے حل کے طریقہ کار سمیت معاہدے کے نفاذ کے لیے پوری طرح پرعزم ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ہندوستان بھی نیک نیتی کے ساتھ معاہدے پر عمل درآمد کرے گا۔

کشن گنگا پراجیکٹ تنازعہ کیا ہے؟

پاکستان اور بھارت کے درمیان کشن گنگا پراجیکٹ کے حوالے سے تنازعہ سال 2007 میں اس وقت شروع ہوا جب بھارت میں کشن گنگا ڈیم پر ہائیڈرو پاور پراجیکٹ شروع ہوا تو پاکستان کو پانی کی فراہمی متاثر ہوئی جس پر پاکستان نے پانی کی فراہمی کے معاملے پر بھارت کے خلاف عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کیا تھا۔ پاکستان کا کہنا تھا کہ اس پراجیکٹ کی وجہ سے سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

عالمی ثالثی عدالت نے 2013 میں بھارت کو کشن گنگا پراجیکٹ ڈیزائن میں مشروط تبدیلی کی اجازت دی تھی۔

پاکستان کا موقف تھا کہ شمالی کشمیر کے خطے میں واقع کشن گنگا ڈیم کی تعمیر سے پاکستان کی طرف پانی کے بہاؤ میں غیر معمولی اثر پڑے گا۔پاکستان نے دریائے نیلم پر کشن گنگا ڈیم اور دریائے چناب پر 850 میگا واٹ ریٹلے پن بجلی منصوبے کے خلاف عالمی ثالثی عدالت میں قرارداد پیش کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

جب کہ بھارت نے کشن گنگا ڈیم کیس کو عالمی ثالثی عدالت کے دائرہ اختیار سے نکالنے کی درخواست کی تھی۔

XS
SM
MD
LG