پاکستان میں 'ڈیجیٹل رائٹس' کے حوالے سے کام کرنے والے 100 سے زائد افراد اور تنظیموں نے 'آن لائن ہارمز رولز 2020' پر حکومت سے مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ تنظیموں کا کہنا ہے کہ جب تک حکومت یہ رولز واپس نہیں لیتی، اس وقت تک مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
اس بارے میں ایک خط بھی حکومت کو بھجوایا گیا ہے جس پر 100 سے زائد شخصیات اور تنظیموں کے نمائندوں کے دستخط ہیں۔
خط میں لکھا گیا ہے کہ ایسی صورتِ حال میں کہ جب کابینہ ان رولز کو منظور کر چکی ہے اور رولز پر عمل درآمد کے لیے 'نیشنل کوآرڈینیٹر' تعینات کرنے سمیت مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں، تو حکومت سے مشاورت کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔
تنظیموں کا کہنا ہے کہ موجودہ قوانین کے ذریعے پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اپنے اختیارات کا غلط استعمال کر رہی ہے اور اب نئے رولز کی مدد سے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کرنے کا کہا جا رہا ہے۔ لہٰذا ایسی صورتِ حال میں حکومت سے مشاورت کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
ڈیجیٹل رائٹس کے حوالے سے سرگرم تنظیموں اور شخصیات کے مطابق اگر حکومت ان رولز پر کوئی مشاورت یا مذاکرات کرنا چاہتی ہے تو پہلے رولز کو ڈی نوٹیفائی کیا جائے۔
ایک تنظیم 'میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی' کے اسد بیگ نے اس معاملے پر کہا ہے کہ حکومت کنفیوژن کا فائدہ اٹھانا چاہ رہی ہے۔ ایک جانب اعلان کیا جا رہا ہے کہ وزیرِ اعظم کے کہنے پر ان رولز پر مشاورت ہو گی جب کہ وزارتِ انفارمیشن و ٹیکنالوجی کا کہنا ہے کہ رولز کے مطابق نیشنل کوآرڈینیٹر جلد تعینات کیا جائے گا۔ ایسے میں حکومت سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا اجلاس
دوسری جانب حکومت اپنے مؤقف پر تاحال قائم ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کے اجلاس میں سیکریٹری آئی ٹی شعیب صدیقی نے کہا کہ 28 جنوری کو کابینہ نے ان رولز کی منظوری دی تھی۔ رولز پر عمل درآمد کے لیے کمیٹی اور نیشنل کوآرڈینیٹر 15 دن میں تعینات ہونا تھا۔ لیکن وفاقی وزیر نہ ہونے کی وجہ سے معاملہ رک گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب تک وزیر تعینات نہیں ہوتے، نیشنل کوآرڈینیٹر کی تقرری نہیں ہو گی۔ شعیب صدیقی کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی کمپنیاں پاکستان میں آئیں گی اور ان رولز پر مشاورت بھی ہو گی۔
شعیب صدیقی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا کنٹرول کے لیے نیشنل کوآرڈینیٹر کی تعیناتی کا طریقہ قوائد میں موجود ہے۔ نیشنل کوآرڈینیٹر کے ماتحت مختلف لوگوں پر مشتمل ایک کمیٹی ہوگی اور کوآرڈینیٹر کی تعیناتی کا اختیار وزیر آئی ٹی کے پاس ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ میڈیا کے ہاتھ باندھنے سے متعلق خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ قوائد میں پاکستانی عوام کی دلی خواہشات کے خلاف کچھ بھی نہیں ہے۔ ٹوئٹر اکاؤنٹس کی معطلی سے متعلق چیئرمین پی ٹی اے ٹوئٹر انتظامیہ سے رابطے میں ہیں۔
اس سے قبل قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں اپوزیشن ارکان کی طرف سے ان رولز پر شدید تنقید کی گئی اور انہیں آزادیٔ اظہار رائے سے متصادم قرار دیا گیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی ناز بلوچ نے کہا کہ ہمارے ٹوئٹر، فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ایک کوآرڈینیٹر بٹھا دیا گیا ہے۔ ہم نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو مضبوط کرنے کا کہا تھا۔ حکومت نیا آفس بنانے پر آگئی۔
ناز بلوچ کا کہنا تھا کہ یہ حکومت جب اپوزیشن میں تھی تو سوشل میڈیا درست تھا۔ اب تنقید برداشت نہیں ہوئی تو نیشنل کوآرڈینیٹر لے آئے۔
چئرمین قائمہ کمیٹی علی خان جدون نے کہا کہ حکومت کے پیش کردہ ان رولز کی وجہ سے گوگل اور فیس بک نے پاکستان میں اپنی سروسز بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔
جواب میں چیئرمین پی ٹی اے میجر جنرل عامر کا کہنا تھا کہ جعلی خبریں اور ریاست مخالف پروپیگنڈا روکنے کا اس وقت ہمارے پاس کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔ کشمیر ایشو پر ٹوئٹر نے 600 اکاؤنٹس معطل کیے اور کوئی جواز نہیں دیا کہ ایسا کیوں کیا گیا؟
انہوں نے کہا کہ چائلڈ پورنو گرافی اور ریاست مخالف مواد بھی وقت پر بلاک نہیں ہوتا۔ نہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا یہاں دفتر ہے اور نہ ہی عدم تعاون کی وضاحت دی جاتی ہے۔
ان کے بقول گزشتہ روز وزیرِ اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کا جعلی ٹوئٹر اکاؤنٹ بنایا گیا اور اس پر پوسٹ کی گئی کہ کرونا وائرس تباہی پھیلانے آ رہا ہے۔
چیئرمین پی ٹی اے کا کہنا تھا کہ آن لائن مواد کو ریگولیٹ کرنے کے لیے دنیا بھر میں قانون سازی ہو رہی ہے۔ لہٰذا ان رولز کا مقصد سوشل میڈیا کو بلاک کرنا نہیں ہے، بلکہ ریگولیٹ کرنا ہے۔
رولز ہیں کیا؟
پاکستان کی وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے جنوری میں سوشل میڈیا کے حوالے سے نئے رولز تشکیل دیے تھے جنہیں 'سٹیزن پروٹیکشن اگینسٹ آن لائن ہارم رولز 2020' کا نام دیا گیا تھا۔
رولز کے مطابق وزارت آئی ٹی سوشل میڈیا کے لیے ایک نیشنل کوآرڈینیٹر تعینات کرے گی۔
رولز میں سوشل میڈیا کمپنیوں کو غیر قانونی مواد 24 گھنٹے میں ہٹانے کا پابند کیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا کمپنیوں کو اسلام آباد میں اپنے دفاتر بنانا ہوں گے جب کہ اس کے ساتھ سوشل میڈیا کمپنیوں کو پاکستان میں ڈیٹا بینک بھی بنانا ہوں گے۔
نیشنل کوآرڈینیٹر سوشل میڈیا کمپنیوں کو قانون کی خلاف ورزی پر 50 کروڑ تک کا جرمانہ بھی کر سکتا ہے۔