رسائی کے لنکس

الیکشن التوا کیس; 'اگر حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات ہوں تو کچھ دن وقفہ کرلیں گے'


چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ اگر حکومت اور اپوزیشن مذاکرات کر لیں تو الیکشن التوا کیس میں وقفہ کر لیں گے۔

جمعے کو سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ اسمبلیوں کی مدت ویسے ہی اگست میں ختم ہو رہی ہے۔ اگر مذاکرات نہ ہوئے تو اپنا آئینی کردار ادا کریں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت کے سامنے مسئلہ آٹھ اکتوبر کو انتخابات کی تاریخ کا ہے۔ عدالت کو الیکشن میں التوا کی ٹھوس وجہ بتائیں یا ڈائیلاگ شروع کریں۔

اُنہوں نے کہا کہ ایک فریق پارٹی چیئرمین کی گارنٹی دے رہا ہے شاید حکومت کو بھی ماضی بھلانا پڑے۔

'تمام ججز کو سنی سنائی باتوں پر نشانہ بنایا جا رہا ہے'

دورانِ سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیاسی معاملہ چل رہا ہے جس بنیاد پر دیگر ججز کو نشانہ بنایا گیا۔تمام ججز کو سنی سنائی باتوں پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔سپریم کورٹ متحد تھی کچھ معاملات میں اب بھی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ـ "عدلیہ کس طرح متاثر ہو رہی ہے، کوئی نہیں دیکھتا،اہم عہدوں پر تعینات لوگ کس طرح عدلیہ کو نشانہ بنا رہے ہیں۔مجھے کہا جا رہا ہے کہ ایک اور جج کو سزا دوں۔"

اُنہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں 20سال کی نسبت بہترین ججز ہیں،جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس شاہد وحید کے فیصلے پڑھیں۔جسٹس شاہد وحید نے بہترین اختلافی نوٹ لکھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ " قانون پر بات کریں تو میں بطور جج سنوں گا، میرے ججز کے بارے میں بات کریں گے تو میرا سامنا کرنا پڑے گا۔ میرا بھی دل ہے میرے بھی جذبات ہیں۔جو کچھ کیا پوری ایمان داری سے اللہ کو حاضر ناظر جان کر کیا۔"

سماعت کے دوران اٹارنی جنرل فل کورٹ بنانے کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے سماعت پیر تک کے لیے ملتوی کر دی۔

جسٹس جمال مندوخیل کی معذرت

اس سے قبل پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات مؤخر کرنے سے متعلق کیس کی سماعت کرنے والا سپریم کورٹ کا لارجر بینچ ایک اور جج کی معذرت کے بعد جمعے کو پھر تحلیل ہو گیا جب کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔

سپریم کورٹ کے حکم نامے کی روشنی میں چار رکنی بینچ نے جمعے کو کیس کی سماعت کرنی تھی تاہم چار رکنی بینچ میں شامل جسٹس جمال خان مندوخیل نے کیس کی سماعت کرنے سے معذرت کر لی ہے۔

وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق جمعرات کو جسٹس امین الدین خان اس لارجر بینچ سے الگ ہوگئے تھے جس کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بینچ کا حصہ تھے۔ سپریم کورٹ نے اس چار رکنی بینچ کے ساتھ سماعت جاری رکھنے کا حکم نامہ جاری کیا تھا۔

سپریم کورٹ کے حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ جسٹس امین الدین خان اپنے فیصلے کی روشنی میں بینچ سے علیحدہ ہوئے ہیں۔

بینچ کے تین ارکان نے جسٹس امین الدین خان کے مؤقف سے اختلاف کیا ہے جن میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں اور انہوں نے سماعت جاری رکھنے کا مؤقف اپنایا ہے جب کہ جسٹس جمال مندوخیل کی سماعت جاری رکھنے یا نہ رکھنے پر کوئی رائے اس حکم نامے میں شامل نہیں تھی۔

بعد ازاں جب جمعے کو سماعت کے آغاز کا وقت ہوا تو جسٹس جمال مندوخیل نے کیس سننے سے معذرت کرلی۔

کمرۂ عدالت میں آنے پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ جسٹس جمال خان مندو خیل کچھ کہنا چاہتے ہیں کیوں کہ وہ بینچ کا حصہ نہیں رہنا چاہتے۔

چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ کل جسٹس جمال خان مندو خیل بینچ میں شامل ہونے پر رضامند تھے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ میں کل کچھ کہنا چاہتا تھا کہہ نہ سکا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس بینچ میں میری ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے بینچ سے خود کو الگ کرتا ہوں جس کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم جلد نیا بینچ بنا کر آ رہے ہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے سپریم کورٹ کے حکم نامے کے حوالے سے اختلافی نوٹ بھی جاری کیا۔

اختلافی نوٹ میں جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ حکم نامہ کھلی عدالت میں نہیں لکھوایا گیا اور نہ یہ حکم نامہ لکھتے وقت ان سے مشاورت کی گئی تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ جسٹس فائز عیسی کے فیصلے کا کھلی عدالت میں جائزہ لینا چاہیے۔

قبل ازیں جمعرات کو بھی پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات مؤخر کرنے سے متعلق کیس کی سماعت کرنے والا سپریم کورٹ کا لارجر بینچ جسٹس امین الدین کی معذرت کے بعد تحلیل ہو گیا تھا۔

جمعرات کو سپریم کورٹ میں اس کیس کی چوتھی سماعت ہونے والی تھی لیکن مقررہ وقت پر کیس کی سماعت شروع نہیں ہو سکی تھی۔ بعد ازاں جب بینچ کورٹ روم میں آیا تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جسٹس امین الدین خان کچھ کہنا چاہتے ہیں۔

جسٹس امین الدین خان نے ایک دن قبل ازخود سماعت سے متعلق جسٹس فائز عیسیٰ کے ایک کیس میں دیے گئے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کیس سننے سے معذرت کر لی ۔

ان کی بینچ میں شرکت سے سے معذرت کے بعد کیس کی سماعت کرنے والے بینچ کے ارکان کورٹ روم سے واپس چلے گئے تھے۔

بعدازاں ایک مختصر عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ مقدمہ اس بینچ کے سامنے مقرر کیا جائے گا جس میں جسٹس امین الدین شامل نہیں ہوں گے اور کیس کی سماعت جمعے کو دن ساڑھے گیارہ بجے مقرر کردی گئی تھی۔

خیال رہے کہ بدھ کو سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین کا ایک کیس میں فیصلہ سامنے آیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ازخود نوٹس مقدمات مقرر کرنے اور بینچ کی تشکیل کے لیے رولز موجود نہیں ہیں لہذا رولز بننے تک ازخود نوٹس کے آرٹیکل 184(3) کے تحت جاری تمام کیسز کو ملتوی کردیا جائے۔

سپریم کورٹ میں حافظ قرآن کو 20 اضافی نمبر دینے کے از خود نوٹس کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ کا 12 صفحات کا فیصلہ دو ایک کے تناسب سے جاری کیا تھا۔

خصوصی بینچ کی سربراہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کر رہے تھے جب کہ جسٹس امین الدین اور جسٹس شاہد وحید اس میں شامل تھے۔جسٹس شاہد وحید نے فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے تحریر کردہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ از خود کیسز مقرر کرنے اور بینچز کی تشکیل کے لیے اس وقت قواعد موجود نہیں ہیں۔ رولز کی تشکیل تک اہم آئینی اور ازخود مقدمات پر سماعت مؤخر کی جائے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نےانتخابات ازخود نوٹس کیس کے فیصلے میں الیکشن کمیشن کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 90 روز میں انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے عدالتی حکم پر رواں ماہ ہی پنجاب میں انتخابات کے لیے 30 اپریل کا شیڈول جاری کیا تھا۔

لیکن الیکشن کمیشن نے 22 مارچ کو پنجاب اسمبلی کے ان انتخابات کو آٹھ اکتوبر تک ملتوی کردیا تھا۔کمیشن نے انتخابی عمل اور امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اہل کاروں کی عدم دستیاب کو جواز بنایا تھا۔

اس کے علاوہ گورنر خیبرپختونخوا حاجی غلام علی نے صوبے میں 28 مئی کو انتخابات کی تاریخ دی تھی۔ البتہ انہوں نے بھی چیف الیکشن کمشنر کو ایک خط ارسال کیا کہ صوبے میں آٹھ اکتوبر کو الیکشن کرائے جائیں۔گورنر نے صوبے میں الیکشن مؤخر کرنے کی وجہ امنِ عامہ کی صورتِ حال کو قرار دیا تھا۔ ان کی تجویز پر الیکشن کمیشن نے خیبر پختونخوا میں بھی الیکشن آٹھ اکتوبر کو کرانے کا اعلان کیا ہے۔

اس معاملے پر پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور عدالت میں دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے الیکشن کو آٹھ اکتوبر کو منعقد کرنے کا نوٹی فیکیشن کالعدم قرار دیا جائے۔

درخواست میں عدالت سے اپیل کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں 30 اپریل کو ہی پنجاب میں الیکشن کرائے جائیں۔

XS
SM
MD
LG