رسائی کے لنکس

کراچی:  آنکھوں کا نور بانٹنے والے مسیحا ڈاکٹر بیربل گینانی کا قتل


"جب 1947 میں تقسیم ہورہی تھی تو اس وقت جنہوں نے جانا تھا وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر چلے گئے تھے لیکن ہم جو بیٹھے ہوئے تھے۔ ہماری یہی سوچ تھی کہ ہمارا جینا مرنا تو یہیں پر ہے تو میرے والد بتاتے ہیں کہ ہمارے پڑوسیوں نے ہماری حفاظت کی۔ وہ لوگ ڈنڈے لے کر ہمارے گھر کے دروازے کے باہر ہوتے تھے کہ کوئی ہمیں نقصان نہ پہنچائے۔"

یہ کہنا تھا معروف ماہر ِچشم ڈاکٹر بیربل گینانی کا جنہیں جمعرات کی شام ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں نامعلوم افراد نے اس وقت قتل کر دیا جب وہ اپنے کلینک سے گھر کی طرف جا رہے تھے۔

عینی شاہدین کے مطابق گاڑی پر فائرنگ کا واقعہ افطار سے کچھ دیر قبل ہوا تھا۔

پاکستان کے قیام کے 75 سال مکمل ہونے پر وائس آف امریکہ کی جانب سے اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی مختلف شخصیات کے انٹرویوز کیے جا رہے تھے۔ ان میں ایک نام 62 سالہ ماہرِ چشم ڈاکٹر بیربل گینانی کا بھی تھا۔ یہ 21 جون 2022 کی شام تھی جب میری ان سے پہلی ملاقات ان کی کلینک پر ہوئی۔

آدھے گھنٹے کے اس انٹر ویو میں، جس کا موضوع 'ہم نے ہجرت کیوں نہیں کی' تھا، ڈاکٹر بیربل کی تمام تر گفتگو پاکستان سے شروع ہوکر اسی پر تمام ہوئی جس وقت ہم ان کا انٹر ویو کر کے نکلے تو ان کے کلینک میں بہت سے ایسے مریض بیٹھے ہوئے تھے جو مفت علاج کی غرض سے ان تک پہنچے تھے۔

ایک پرائیویٹ کلینک میں بھی ایسے مریض اگر آجائیں تو وہ ان سے فیس وصول نہیں کرتے تھے بلکہ ادویات بھی اپنے پاس سے دے دیتے تھے جو ہر وقت ان کی گاڑی میں رکھی ہوتی تھیں۔

پاکستان میں اقلیتوں کو حاصل ہونے والے تحفظ پر ڈاکٹر بیربل کا کہنا تھا کہ "چھوٹے موٹے واقعات تو ہر جگہ ہوتے ہیں اگر صرف دہشت گردی کی ہی بات کر لی جائے تو پاکستان میں سب سے زیادہ نشانہ مسلمان ہی بنے ہیں مساجد تک میں دھماکے ہوئے ہیں لیکن یہ کہنا کہ اقلیت غیر محفوظ ہے یہ درست نہیں یہ ہمارا وطن ہے اور اتنا ہی ہے جتنا مسلمانوں کے لیے ہے۔"

مثبت سوچ رکھنے والے ڈاکٹر بیربل کا تعلق صوبہ سندھ کے ضلع سانگھڑ سے تھا۔ وہ اسپنسر آئی اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ بھی رہے۔ آنکھوں کے اس اسپتال میں کئی شعبے فنڈز کی کمی کے سبب ایک طویل عرصے تک غیر فعال رہے لیکن ڈاکٹر بیربل گینانی کی کاوشوں کے ذریعے اس اسپتال کے وہ تمام یونٹس پھر سے کام کرنے لگے جن کے بارے میں یہ تصور کرلیا گیا تھا کہ شاید ہی وہ کبھی اپنی پہلی جیسی حالت میں واپس آسکیں۔

ڈاکٹر بیربل نے پاکستان میں قرنیا کی پیوندکاری کا پروگرام روٹری اور سری لنکا کے تعاون سے دوبارہ شروع کیا جس کے سبب ہزاروں افراد کو بینائی کی نعمت ملنے لگی۔

ڈاکٹر بیربل اپنے آبائی علاقے سانگھڑ اور اس کے نواحی علاقوں کے ساتھ صوبے کے مختلف پسماندہ علاقوں میں فری کیمپس بھی لگاتے تھے۔ جہاں سینکڑوں ضرورت مند مریضوں کی آنکھوں کا علاج مفت کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ادویات اور چشمے فراہم کرکے دعائیں سمیٹتے تھے۔

کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کے سینئر ڈائریکٹر میڈیکل اینڈ ہیلتھ سروسزہونے کے ناطے انہوں نے کے ایم سی کے زیر نگرانی ایسے اسپتال جہاں فنڈز کی کمی کے سبب حالات مخدوش تھے وہاں مریضوں کے لیے ادویات کی فراہمی کو آسان بنایا۔

ڈاکٹر بیربل نے حال ہی میں اپنی بیٹی کے ساتھ جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی تھی و ہ مستقبل میں پی ایچ ڈی کرنے کے خواہش مند بھی تھے۔

اپنے انٹرویو کے دوران انہوں نے بتایا تھا کہ ان کے بیٹے بیرون ملک مقیم ہیں، وہ جب بھی ان سے ملنے جائیں تو ان کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ وہ جلد از جلد وطن واپس آئیں کیوں کہ ان کے دل و دماغ میں یہ بات بسی ہوئی ہے کہ پاکستان نے انہیں بہت کچھ دیا ہے اب ان کے لوٹانے کا وقت ہے جو وہ ضرورت مندوں کو مفت علاج کر کے ہی لوٹا سکتے ہیں۔

ان کی خواہش تھی کہ وہ ایک ایسا آنکھوں کا اسپتال بنائیں جہاں صرف صوبے سے نہیں ملک بھر سے لوگ مفت اور معیاری علاج کی غرض سے آسکیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر بیربل کی صاحب زادی ڈاکٹر سپنا کماری کا کہنا تھا کہ یہ وقت ان کے خاندان پر بہت کٹھن ہے۔ ان کے والد کا پوسٹ مارٹم مکمل ہوچکا ہے اور ان کے جسد خاکی کو گھر لے جانے کی اجازت مل چکی ہے۔ یہ قتل کیوں کیا گیا اور اس کے پیچھے کیا محرکات ہیں اس پر پولیس ہی صحیح جواب دے سکتی ہے۔ انہوں نے آج اپنا باپ کھویا ہے اور یہ نقصان ناقابل تلافی ہے۔

سلمی کوثر جو عباسی شہید اسپتال کی ایم سی کی سابقہ سینئر ڈائریکٹر میڈیکل ہیلتھ رہی ہیں، ان کے لیے ڈاکٹر بیربل کے قتل کی خبر حیران کن تھی۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں ڈاکٹر بیربل کو 1983 کے اس زمانے سے جانتی ہوں جب وہ سندھ میڈیکل کالج میں میرے سینئر تھے۔

ان کے بقول انہوں نے ڈاکٹر بیربل کے ساتھ کام کیا اور 10 برس وہ ان کے ماتحت بھی رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بحیثیت انسان وہ ایک ملنسار اور رحم دل مسیحا تھے۔ انہوں نے کبھی بھی انہیں سخت ایڈمنسٹریٹر کے طور پر نہیں دیکھا ان کے تعلقات سب کے ساتھ اچھے رہے۔

سلمیٰ کوثر کا مزید کہنا تھا وہ کبھی بھی متعصب نہیں رہے نہ ہی انہیں کبھی مذہب کے بارے میں کوئی بات کرتے یا اس پر رائے دیتے سنا ہوگا۔ وہ سب کے عقائد اور مذاہب کا احترام کرنے والے شخص تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب ڈاکٹر کے قتل کی خبر ملی تو ان کے ذہن میں پہلا خیال یہی آیا کہ یہ معاملہ مذہبی بنیاد پر نہیں ہوسکتا کیوں کہ ڈاکٹر بیربل اس قسم کے انسان تھے ہی نہیں کہ انہیں مذہب کی بنیاد پر ٹارگٹ کیا گیا ہو۔

'اس قتل کو براہ راست مذہبی رنگ دینا درست نہیں'

اقلیت سے تعلق رکھنے والے سیاست دان رمیش کمار نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر بیربل نے جس طرح سے مخیر حضرات کے تعاون سے اسپنسر آئی اسپتال میں قرنیا ٹرانسپلانٹ پروگرام دوبارہ بحال کیا، یہ کم ہی معالجین کر پاتے ہیں۔ وہ لوگوں کے لیے بے لوث خدمت کا جذبہ رکھتے تھے۔

رمیش کمار کے مطابق انہیں ڈاکٹر بیربل کے قتل پر خاصی تشویش ہے اور انہوں نے اس سلسلے میں آئی جی سندھ غلام نبی میمن سے بات کی ہے کہ وہ اس واقعے کی جلد از جلد تحقیقات کریں ۔

رمیش کمار کا کہنا تھا کہ اس قتل کو براہ راست مذہبی رنگ دینا درست نہیں ہے، جب تک تفتیش مکمل نہیں ہوجاتی کسی نتیجے پر پہنچنا ٹھیک نہیں ہوگا۔

انہوں نے حیدر آباد میں ڈاکٹر دھرم دیر پر ہونے والے تشدد کے واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس پر بھی جب پولیس نے تفتیش کی تو محرکات پیسے کے لین دین کے سامنے آئے تھے لیکن تب تک اس واقعے کو بھی مذہبی رنگ دے کر سوشل میڈیا پر اچھالا گیا۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان ایک مشکل وقت سے گزر رہا ہے اس میں پیش آنے والے دہشت گردی اور جرائم کو مذہب سے جوڑنا تحقیقات کو بھی متاثر کرسکتا ہے۔

ڈاکٹر بیربل پر جس وقت حملہ ہوا اس وقت ان کے ہمراہ ان کی اسسٹنٹ نرس قرة العین بھی کار میں سوار تھی۔ فائرنگ کے نتیجے میں قرہ العین بھی زخمی ہوئیں جنہوں نے طبی امداد کے بعد پولیس کو بیان دیا کہ وہ 10 برس سے ڈاکٹر بیربل کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ واقعے کے وقت وہ رام سوامی سے پاک کالونی کی طرف جارہے تھے کہ اچانک نامعلوم افراد نے ان پر فائرنگ کی۔ اُس لمحے ان کی آنکھوں کے سامنے چنگاریاں سی گزریں اور چند سیکنڈ بعد دیکھا تو مجھے گولی لگی تھی اور ڈاکٹر بیربل کے سر سے خون بہہ رہا تھا جس کے بعد میں نے اپنی طرف کا دروازہ کھول کر مدد کے لیے شور مچایا۔

میڈیا سے بات کرتے ہوئے ایس ایس پی سٹی عارف عزیز کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر بیربل کو سر میں دو گولیاں لگیں جب کہ جائے وقوعہ سے نائن ایم ایم پستول کے خول بر آمد کر لیے گئے ہیں۔ بظاہر یہ واقعہ ٹارگٹ کلنگ کا لگتا ہے لیکن جب تک تحقیقات مکمل نہ ہوجائیں تب تک کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ آیا یہ قتل کسی دشمنی کے نتیجے میں ہوا یا اس کی وجہ کچھ اور ہے۔

پولیس کے مطابق ڈاکٹر بیربل رام سوامی میں اپنا کلینک چلا رہے تھے۔ وہ گلشن اقبال اپنے گھر جانے کے لیے لیاری ایکسپریس وے گارڈن انٹر چینج کا راستہ استعمال کرتے تھے جہاں موٹر سائیکل سواروں نے انہیں فائرنگ کا نشانہ بنایا۔

واقعے کے فورا بعد ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے عہدیداران کا جناح اسپتال میں ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا جس میں سندھ بھر میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا۔

جنرل سیکریٹری وائی ڈی اے ڈاکٹر محبوب علی نوناری کا کہنا تھا کہ جمعےسے اتوار کے روز تک سندھ بھر کے اسپتالوں میں ڈاکٹرز سیاہ پٹیاں باندھ کر یوم سیاہ منائیں گے۔

انہوں نے آئی جی سندھ سے ڈاکٹر بیربل کے قتل میں ملوث افراد کو فوری گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا اور اعلان کیا کہ اگر 48 گھنٹوں میں قاتل گرفتار نہ ہوئے تو سندھ بھر کے اسپتالوں میں تمام شعبوں کا بائیکاٹ کردیا جائے گا۔

XS
SM
MD
LG