اسپیشل کورٹ سنٹرل لاہور نے وزیر اعظم شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی بریت کی درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے دونوں کو منی لانڈرنگ کے مقدمہ سے بری کر دیا ہے۔
اسپیشل کورٹ سینٹرل کے جج اعجاز حسن اعوان نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی بریت کی درخواستیں منظور کر لیں۔
بدھ کے روز وزیراعظم شہباز شریف سمیت دیگر کے خلاف روپوں کی غیر قانونی بیرون ملک منتقلی کیس (منی لانڈرنگ کیس) کی سماعت اسپیشل جج سنٹرل اعجاز حسن اعوان کی عدالت میں ہو ئی تو ایف آئی اے کے اسپیشل پراسکیوٹر فاروق باجوہ اور شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز عدالت میں پیش ہوئے۔
امجد پرویز نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی حاضری معافی کی درخواستیں دائر کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کے بیرون ملک دورے کا شیڈول عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم بیرون ملک جانے کی وجہ سے عدالت پیش نہیں ہو سکتے جبکہ حمزہ شہباز کمر میں تکلیف کے سبب عدالت پیش نہیں ہو سکتے۔ دونوں کو ایک روز کیلئے حاضری سے استثنی دیا جائے۔
جس کے بعد امجد پرویز نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 161کے بیانات میں کسی بھی گواہ کی جانب سے شہباز شریف اور حمزہ کو نامزد نہیں کیا گیا۔ عدالت نے گواہوں کے بیانات کا ریکارڈ کھلوا لیا ہے۔
جس پر فاضل جج نےاستفسار کیا کہ کیا اسلم زیب بٹ گواہ نے بھی کوئی بیان قلمبند کروایا ہے؟ امجد پرویز نے جواب دیا کہ تفتیش کرنے والوں نے گواہ اسلم کے بیان کو توڑ مروڑ کر چالان میں پیش کیا ہے۔ ایف آئی اے نے اسلم زیب بٹ کو گواہوں کی فہرست میں شامل تو کیا مگر پیش نہ کرنے کا بھی کہا ہے۔ اسلم زیب بٹ گواہ ہے اور اس کا والد اورنگزیب بٹ اسی کیس میں ملزم ہے۔
اِس موقع پر شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے پڑوسی ملک بھارت کے ایک کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایل کے ایڈوانی کیس میں ناجائز فائدے لینے کے ویڈیو بیانات کے باوجود عدالت نے الزام کو تسلیم نہیں کیا تھا۔
فاضل جج کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق پراسکیوشن کو اپنا لگایا گیا الزام ثابت بھی کرنا ہوتا ہے۔
جس پر امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کا کیس بریت کیلئے ایل کے ایڈوانی کیس سے بھی زیادہ مضبوط وجوہات پر کھڑا ہے۔ تفتیشی افسر نے کوئی بھی الزام ثبوت کیساتھ نہیں لگایا۔مسرور انور کے بارے میں کہا گیا کہ وہ حمزہ شہباز کا قابل اعتماد کیش بوائے تھا۔
اِس موقع پر ایف آئی اے کے اسپیشل پراسیکیوٹر فاروق باجوہ نے عدالت کو بتایا کہ مسرور انور ملزم میاں شہباز اور گلزار احمد کے اکائونٹس آپریٹ کرتا رہا ہے۔ جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ مسرور انور نے گلزار کے اکائونٹس سے کتنی ترسیلات کیں؟ فاروق باجوہ نے عدالت کو بتایا کہ مسرور انور نے شہباز شریف اور گلزار کے اکائونٹس سے 4 ترسیلات کیں۔
فاضل جج نے پراسیکوشن کو ہدایت کی کہ ان 4 ترسیلات کا ریکارڈ دکھائیں۔ جس پر ایف آئی اے کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 4 ترسیلات کا ریکارڈ تلاش کرنے کے باوجود نہیں ملا۔ اگر اُنہیں وقت دیا جائے تو وہ ریکارڈ سے ثابت کر سکتے ہیں کہ 4 ترسیلات کا ریکارڈ موجود ہے۔ ایسے میں 20 منٹ تک ریکارڈکی تلاش کے باوجود 4 ترسیلات جو گلزار کی وفات کے بعد مسرور انور نے کیں ان کا ریکارڈ نہ مل سکا۔ پراسیکیوٹر نے تسلیم کر لیا کہ مسرور انور سے منصوب 4 ترسیلات کا ریکارڈ موجود نہیں ہے۔
ایسے میں فاضل جج نے عدالتی عملے کو ہدایت کی کہ آرڈر شیٹ پر پراسیکیوٹر اور تفتیشی افسر کے دستخط لے لیں۔ جس پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔
اِس سے قبل 11 اکتوبر کو اسپیشل سینٹرل کورٹ نے وزیراعظم شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کیس میں بریت کی درخواستوں پر وکلاء کو 12 اکتوبر تک دلائل مکمل کرنےکی ہدایت کی تھی۔
گذشتہ روز ہونے والی سماعت میں ایف آئی اے نے عدالت کوبتایا تھاکہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے اکاؤنٹ میں براہ راست پیسے جمع ہونے یا نکلوانے کے کوئی شواہد نہیں۔
کیس کیا ہے؟
پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ایف آئی اے نے نومبر 2020 میں شہباز شریف اور ان کے بیٹوں حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کے خلاف انسداد بدعنوانی ایکٹ کی دفعہ 419، 420، 468، 471، 34 اور 109 اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کی دفعہ 3/4 کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔
یہ مقدمہ ایف آئی اے لاہور نے درج کیا تھا۔ بدعنوانی کی روک تھام کے قانون کی دفعہ 5 (2) اور 5 (3) (مجرمانہ بدانتظامی) کے تحت 14 دیگر افراد کو بھی اس ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا تھا۔ ایف آئی اے کے مطابق نامزد کیے گئے افراد شہباز شریف کے ملازم یا اِن کے لیے کام کرتے تھے۔
ایف آئی اے کی جانب سے شہباز شریف پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے اپنے بیٹوں، حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کو ان کی آمدنی کے خفیہ اور نامعلوم ذرائع سے مال جمع کرنے میں مدد دی ہے۔
اِس سلسلے میں ایف آئی اے نے 13 دسمبر 2021 کو شہباز شریف، حمزہ شہباز اور دیگر ملزمان کے خلاف سولہ ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا چالان بینکنگ عدالت میں جمع کرایا تھا۔
چالان کے مطابق ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم نے 28 بے نامی بینک اکاؤنٹس کا پتا لگایا گیا ہے۔ جو سن دو ہزار آٹھ سے سنہ دو ہزار اٹھارہ تک شہباز شریف خاندان ملازمین کے ناموں پر چنیوٹ لاہور کے مختلف بینکوں میں بنائے گئے۔
ایف آئی اے کی جانب سے جمع کرائے گئے چلان کے مطابق 28 بے نامی اکاؤنٹس میں سترہ ہزار سے زائد کریڈٹ ٹرانز یکشنز اور سولہ ارب روپے کی منی ٹریل کا تجزیہ کیا گیا۔ چا لان کے مطابق ان اکاؤنٹس میں بھاری رقوم چھپائی گئی۔
چالان کے مطابق اس سے قبل شہباز شریف بطور وزیر اعلیٰ پنجاب پچاس لاکھ امریکی ڈالر سے زائد کی منی لانڈرنگ میں براہ راست ملوث تھے۔ جنہوں نے بیرون ملک ترسیلات جعلی ٹی ٹی کے ذریعے بحرین کی ایک خاتون صادقہ سید کے نام اس وقت کے وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کی مدد سے بھیجیں۔
ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز دونوں ہی 2008 سے 2018 عوامی عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ ایف آئی اے کی جانب سے جمع کرائے گئے چالان کے ساتھ سو افراد کی بطور گواہ فہرست بھی عدالت میں جمع کرائی گئی تھی اور کہا تھا کہ ملزمان کے خلاف 100 گواہ پیش ہوں گے۔
خیال رہے مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران مسلسل غیر حاضری پر عدالت نے شہباز شریف کے بیٹے سلیمان شہباز کو مفرور قرار دے دیا گیا تھا۔ جو اِس وقت برطانیہ میں ہیں۔
استغاثہ کو کیس میں پیش ہونے سے روکا گیا
یاد رہے ایف آئی اے کی جانب سے رواں برس گیارہ مئی سن 2022 کو عدالت میں ایک درخواست جمع کرائے گئی جس میں پراسیکیوٹر سکندر ذوالقرنین سلیم نے کہا کہ استغاثہ کو کیس میں پیش ہونے سے روک دیا گیا کیونکہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز نے اب عوامی عہدہ سنبھال لیا ہے۔ جسے عدالت نے کاررؤائی کا حصہ بنا دیا تھا۔
اِس سے قبل ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر محمد رضوان دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے تھے جو شہباز اور ان کے بیٹے کے خلاف الزامات کی تحقیقات کر رہے تھے۔
شہباز شریف کے خلاف بقیہ کیسز کون سے ہیں؟
واضح رہے کہ مذکورہ کیس کے علاوہ شہباز شریف کے خلاف نیب نے رمضان شوگر ملز، آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم اور منی لانڈرنگ کے ریفرنس دائر کیے تھے۔ جن میں سے رمضان شوگر ملز والا ریفرنس نیب قوانین میں ترمیم کے بعد نیب عدالت سے نیب کو یہ کہہ کر واپس بھیج دیا گیا ہے کہ وہ اَب اُن کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔ جبکہ دیگر دو ریفرینس زیر سماعت ہیں۔
یاد رہے گزشتہ ماہ عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز اور اُن کے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو بری کر دیا تھا۔
خیال رہے سابق وزیراعظم عمران خان نے نیب قوانین میں ترامیم کو عدالت میں چیلنج کر رکھا ہے۔
" این آر او 2 مکمل ہوگیا ہے"
عدالتی فیصلے پر مشیر اطلاعات حکومت پنجاب عمر سرفراز چیمہ کہتے ہیں کہ شہباز اور حمزہ کی منی لانڈرنگ کیس سے بریت سے" این آر او 2" مکمل ہوگیا ہے۔ ہر مرحلے پر پراسیکیوٹر نے تسلیم کیا کہ منی لانڈرنگ ہوئی ہے۔
اُن کی جانب سے بھیجے گئے ایک پیغام میں کہا گیا ہے کہ واضح 16 ارب روپے کے منی لانڈرنگ کیس میں بریت سے بڑے ڈاکوؤں کو کھلی چھٹی مل گئی ہے۔ ایف آئی اے کا کردار شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کا رہا ہے۔
دوسری جانب منی لانڈرنگ کیس میں بری ہونے پر حمزہ شہباز شریف کا کہنا ہے کہ عدالت نے جھوٹے مقدمے میں وزیراعظم شہباز شریف اور اُنہیں باعزت بری کیا ہے۔ آج" حق، سچ اور دیانت داری کی عظیم کامیابی" ہوئی ہے۔
اُن کی جانب سے جاری کردہ ایک پیغام میں کہا گیا, "سیاسی بنیادوں پر قائم مقدمے میں اُنہیں تقریباً بائیس ماہ قید رکھا گیا۔ وزیراعظم شہباز شریف کو بھی پابند سلاسل رکھا گیا۔ عمران نیازی کی ایما پر بنائے جھوٹے مقدمات سے قوم کا وقت، پیسہ اور اداروں کی ساکھ مجروح ہوئی ہے"۔