شام میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک کے مختلف حصوں میں سرکاری افواج کی جانب سے حزبِ مخالف کے مظاہرین کے خلاف کی جانے والی کاروائیوں اور فوج سے بغاوت کرنے والوں کے ساتھ لڑائی میں کم از کم 19 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
رضاکاروں کے مطابق بیشتر ہلاکتیں حمص کے علاقے میں ہوئی ہیں اور ہلاک ہونے والوں میں 13 عام شہری بھی شامل ہیں۔ ان کے بقول ہلاک شدگان میں سے بعض کو سیکیورٹی فورسز نے باغیوں کی تلاش کے دوران گولی مار ی جب کہ بعض لاپتہ افراد کی لاشیں مختلف مقامات سے برآمد ہوئی ہیں۔
یاد رہے کہ حمص شام کے صدر بشارالاسد کے آمرانہ اقتدار کےخلاف ملک میں گزشتہ آٹھ ماہ سے جاری احتجاجی تحریک کا مرکز بنا رہا ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق سرکاری فورسز سے بغاوت کرنےو الے فوجیوں کے حملوں میں چھ فوجی بھی مارے گئے ہیں جن میں سے چار صوبہ عدلب کی ایک چوکی پر گھات لگا کر کیے گئے حملے کے دوران ہلاک ہوئے۔
دریں اثنا، انسانی حقوق کے لیے سرگرم شامی تنظیم 'سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا ہے کہ جمعرات کو شام کے بیشتر اہم شہروں میں ان درجنوں افراد سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ہڑتال کی گئی جنہیں مبینہ طور پر سرکاری افواج نے گزشتہ چند روز کے دوران حمص میں قتل کردیا ہے۔
تنظیم کے مطابق دارالحکومت دمشق کے نواحی علاقوں سمیت حمص، حما، دارعا، دیر الزور اور عدلب کے علاقوں میں ہڑتال رہی جس کی نجی شعبوں سے متعلق محنت کشوں اور اسکولوں نے بھی حمایت کی تھی۔
شامی باشندوں کی جانب سے 'یوٹیوب' پر اپ لوڈ کی گئی ویڈیوز میں ان علاقوں میں بند دکانیں اور بازار دکھائے گئے ہیں۔
شام میں ہونے والی ہلاکتوں کے تازہ دعووں اور پرتشدد کاروائیوں کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں ہے کیوں کہ شامی حکومت نے ملک میں غیر ملکی صحافیوں کی نقل و حرکت پر قدغنیں عائد کر رکھی ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے الزام عائد کیا ہے کہ گزشتہ ہفتے عرب لیگ کے ساتھ ملک میں بدامنی کے خاتمے کے منصوبے پر شام کی حکومت کے اتفاق کے بعد سے اب تک ملک میں شامی افواج کی پرتشدد کاروائیوں میں 110 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
معاہدے کے تحت دمشق نے شہروں سے اپنی فوج واپس بلانے اور حزب مخالف کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن شام کی طرف سے معاہدے کی پاسداری میں ناکامی کے بعد عرب لیگ نے ہفتے کو قاہرہ میں اپنا اجلاس طلب کرلیا ہے جس میں نئی صورتِ حال پر غور کیا جائے گا۔
مذکورہ اجلاس ایک ایسے وقت میں منعقد ہورہا ہے جب صدر بشارالاسد کی حکومت سے متعلق کسی حتمی فیصلے کے لیے عرب لیگ پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔
گزشتہ روز امریکی نائب وزیر خارجہ جیفری فیلٹمین نے عرب لیگ پر زور دیا تھا کہ صدر بشارالاسد کو اقتدار سے ہٹانے کی عالمی کوششوں میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے دمشق کے خلاف سخت موقف اپنائے۔
قبل ازیں اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق نے کہا تھا کہ شام میں رواں برس مارچ میں شروع ہونے والی احتجاجی تحریک کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد ساڑھے تین ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔
بدھ کو اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کی سربراہ ناوی پیلے نے شام میں بھی ویسی ہی مسلح جدوجہد شروع ہونے کا خطرہ ظاہر کیا تھا جیسا کہ لیبیا میں دیکھنے میں آئی تھی۔