سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اس ہفتے نیویارک میں اپنے فوری اہم قانونی چیلنج کا سامنا ہے، جہاں وہ اپنی 2016 کی انتخابی مہم کے دوران پورن سٹار سٹورمی ڈینئیلز کو"خاموش رہنے کے لیے رقم" کی ادائیگیوں سے متعلق الزامات کے تحت منگل کو پیش ہونے والے ہیں۔
لیکن مین ہیٹن کی عدالت پر توجہ کے ساتھ ساتھ سابق صدر کے خلاف اٹلانٹا سے واشنگٹن تک کی تحقیقات بھی آگے بڑھیں گی۔ یہ صورت حال ٹرمپ کو درپیش وسیع تر خطرے کی نشاندہی کرتی ہے جبکہ وہ صدارت دوبارہ حاصل کرنےکےخواہاں ہیں۔
گزشتہ ایک ماہ کے دوران ٹرمپ کو واشنگٹن میں جن قانونی خطرات کا سامنا ہے وہ واضح ہوگئے ہیں۔ مہر بند فیصلوں کے بعد ججوں نے ٹرمپ ٹیم کی جانب سے گرینڈ جیوری کے سامنے گواہی کو روکنے کی کوششوں کو مسترد کر دیا ہے ۔
خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹڈ پریس کے مطابق مشیروں اور معاونین کو گواہی دینے کی ہدایت کرنے والے احکامات یہ ظاہر نہیں کرتے کہ امریکی محکمہ انصاف ان مقدمات میں مجرمانہ الزامات عائد کرنے کے قریب ہے۔
تاہم یہ حکومت کے لیے ایک کلیدی "بند دروازے" کی جیت ہیں کیونکہ وہ اس بات کی تحقیقات کرتی رہی ہے کہ آیا ٹرمپ کی فلوریڈا میں رہائش گاہ میں خفیہ دستاویزات کو مجرمانہ طور پر غلط طریقے سے استعمال کیا گیا اور کیا تحقیقات میں ممکنہ طور پر رکاوٹ ڈالی گئی۔ ا س کے علاوہ ٹرمپ اور ان کے اتحادیوں کی جانب سے 2020 کے صدارتی الیکشن کے نتائج کو کالعدم کرنے کی کوششوں کی تحقیقات بھی ان میں شامل ہیں۔
اس تناظر میں بات کرتے ہوئے سابق وفاقی پراسیکیوٹر اور جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے قانون کے پروفیسر رینڈل ایلیسن کہتے ہیں کہ انہیں لگتا ہے کہ جب بات بغاوت کی کوشش اور اس قسم کے مسائل کے بارے میں ہو گی تو گواہی حاصل کرنے کے لیے محکمہ انصاف کی طرف سے بہت سارے دلائل ہوں گے۔
اے پی کے مطابق دریں اثنا، اٹلانٹا میں ڈسٹرکٹ اٹارنی ٹرمپ اور ان کے اتحادیوں کی طرف سے جارجیا میں اپنی انتخابی شکست کو کالعدم کرنے کی کوششوں کی تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہے۔
خبر میں کہا گیا ہے کہ فروری میں ایک خصوصی گرینڈ جیوری نے کہا کہ اس کا خیال ہے کہ "ایک یا زیادہ گواہوں" نے جھوٹی گواہی دی اور مقامی استغاثہ سے الزامات عائد کرنے پر زور دیا۔
سابق صدر نے خصوصی گرینڈ جیوری کے سامنے کبھی گواہی نہیں دی۔
اگرچہ رپورٹ دیگر الزامات کے امکان کی پیش گوئی نہیں کرتی، یہ کیس اب بھی ٹرمپ کے لیے خاص چیلنجز کا باعث ہے کیونکہ جارجیا میں ان کے اقدامات بہت عوامی سطح پر تھے۔
اس وقت ہونے والی تحقیقات میں ٹرمپ کو ان کے صدارتی دفتر کی طاقت اور محکمہ انصاف کی ان قانونی آراء سے تحفظ حاصل تھا جن میں کہا گیا تھا کہ صدر ہونے کی حیثیت سے ٹرمپ پر فرد جرم عائد نہیں کی جا سکتی۔ لیکن وہ اب صدر نہیں رہے اور ٹرمپ کو اب وہ ڈھال میسر نہیں ہے اور ان پرمجرمانہ کیسز کی بہت اہمیت ہے۔
ان حالات میں استغاثہ نے ٹرمپ کے قریبی لوگوں سے پوچھ گچھ کرنے کی کوشش کی ہےجس کا مقصدٹرمپ کی سوچ اور ممکنہ دفاع کو بہتر طور پر سمجھنا یا ان کے خلاف کیسز میں ممکنہ طور پر گواہی جمع کرنا ہے - جواب میں ٹرمپ کے وکلاء نے بار باراس پر اعتراض کیا ہے لیکن ان کے اعتراضات اکثر بے کار ثابت ہوئے ہیں۔
اس کی ایک واضح ترین مثال گزشتہ ماہ اس وقت سامنے آئی جب دارالحکومت واشنگٹن کی ایک وفاقی عدالت کے چیف جج نے حکم دیا کہ ٹرمپ کے وکیل ایم ایون کورکورن کو مار-آ-لاگو کی تحقیقات میں گرینڈ جیوری کے سامنے مزید گواہی دینا ہوگی۔
کورکورن نے مزید سوالات کے جواب دینے سے انکار کرتے ہوئے گرینڈ جیوری کے سامنے پہلی پیشی میں اٹارنی کلائنٹ کا استحقاق طلب کیا تھا۔ لیکن استغاثہ کے وکلا نے مزید گواہی کے لیے دباؤ ڈالا۔
ڈسٹرکٹ جج بیرل ہاویل نے فیصلہ دیا کہ کورکورن کو گرینڈ جیوری کے سامنے واپس آنا تھا اور وہ ایک ہفتے بعد عدالت میں آئے۔
اسی طرح ایک اور مثال گزشتہ ہفتے اس وقت سامنے آئی جب ایک مختلف وفاقی جج جیمز بواسبرگ نے فیصلہ دیا کہ سابق نائب صدر مائیک پینس کو الیکشن کو کالعدم کرنے کی کوششوں کے بارے میں محکمہ انصاف کے خصوصی وکیل کی تحقیقات میں کچھ گواہی دینا ہوگی۔
اس فیصلے نے ٹرمپ ٹیم کے ایگزیکٹو استحقاق کے دلائل کو مسترد کر دیا حالانکہ بوسبرگ نے اپنے وکلاء کے دلائل کو قبول کرتے ہوئے پینس کو فتح دلائی کہ آئینی وجوہات کی بناء پر ان سے 6 جنوری 2021 کے ان کے اقدامات کے بارے میں پوچھ گچھ نہیں کی جا سکتی۔
خیال رہے کہ اس دن ٹرمپ کے حامیوں کے ایک ہجوم نے یو ایس کیپیٹل یعنی کانگریس کی عمارت پر دھاوا بول دیا جب ریپبلکن پینس ڈیموکریٹک جو بائیڈن کی جیت کی توثیق کے لیے کانگریس کے مشترکہ اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
اے پی کے مطابق ٹرمپ کے ترجمان نے اس رپورٹ پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔ تاہم ایک بیان میں پینس کے معاملے میں فیصلے کا جواب دیتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ محکمہ انصاف طویل عرصے سے معیاری اصولوں سے بہت تجاوز کر رہا ہے اور ٹارنی کلائنٹ کے استحقاق اور ایگزیکٹو استحقاق کے آئین پر مبنی اور طویل عرصے سے قبول شدہ اور جاری معیارات کو تباہ کرنے کی کوشش میں آگے بڑھ رہا ہے۔
ٹرمپ کے دیگر سابق معاونین، جن میں اسٹیفن ملر اور سابق قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ اوبرائن شامل ہیں، کو بھی حال ہی میں ایک جج نے ٹرمپ ٹیم کے ایگزیکٹو استحقاق کے اعتراضات کے باوجود گواہی دینے کا حکم دیا ہے۔
(اس خبر میں شامل معلومات اے پی سے لی گئی ہیں)