واشنگٹن —
افغان صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ اگلے سال جب زیادہ تر بین الاقوامی حملہ آور افواج کا ملک سے انخلا ہوگا، وہ افغانستان میں نو فوجی اڈے امریکہ کو دینے پر تیار ہیں، تاہم وہ اس بات کے خواہاں ہیں کہ سلامتی اور معیشت کے سلسلے میں گارنٹیز فراہم کی جائیں۔
دونوں ممالک 2014ء کے بعد افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی کے بارے میں ایک باہمی سمجھوتہ طے کرنے کے لیے کوشاں رہے ہیں۔
جمعرات کو کابل میں ہونے والی ایک تقریب سے خطاب میں صدر کرزئی نے پہلی بار ہونے والی اِن مذاکرات کے سلسلے میں تفصیل ظاہر کرنے کی پیش کش کی، جو، اُن کے بقول، ایک ’فیصلہ کُن موڑ پر‘ پہنچ چکے ہیں۔
مسٹر کرزئی نے کہا کہ وہ افغانستان بھر میں پھیلے ہوئے نو فوجی اڈے امریکی تحویل میں دینا چاہتے ہیں، جِن میں سے ایک پاکستان کے ساتھ ملنے والی سرحد جب کہ دوسرا ایرانی سرحد کے ساتھ ہے، اُس صورت میں اگر امریکہ افغانستان کے مطالبات قبول کرتا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ ملک کی سلامتی، اُس کے دفاعی افواج کو مضبوط بنانے اور طویل المدت معاشی ترقی کے بارے میں اپنے عزم کا اظہار کرے۔
فوری طور پر، افغان صدر کے بیانات پر امریکی حکومت کی طرف سے کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔
دونوں ممالک 2014ء کے بعد افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی کے بارے میں ایک باہمی سمجھوتہ طے کرنے کے لیے کوشاں رہے ہیں۔
جمعرات کو کابل میں ہونے والی ایک تقریب سے خطاب میں صدر کرزئی نے پہلی بار ہونے والی اِن مذاکرات کے سلسلے میں تفصیل ظاہر کرنے کی پیش کش کی، جو، اُن کے بقول، ایک ’فیصلہ کُن موڑ پر‘ پہنچ چکے ہیں۔
مسٹر کرزئی نے کہا کہ وہ افغانستان بھر میں پھیلے ہوئے نو فوجی اڈے امریکی تحویل میں دینا چاہتے ہیں، جِن میں سے ایک پاکستان کے ساتھ ملنے والی سرحد جب کہ دوسرا ایرانی سرحد کے ساتھ ہے، اُس صورت میں اگر امریکہ افغانستان کے مطالبات قبول کرتا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ ملک کی سلامتی، اُس کے دفاعی افواج کو مضبوط بنانے اور طویل المدت معاشی ترقی کے بارے میں اپنے عزم کا اظہار کرے۔
فوری طور پر، افغان صدر کے بیانات پر امریکی حکومت کی طرف سے کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔