پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور معاشی مرکز کراچی میں مون سون میں بارش اوسط سے کئی گنا زیادہ ہو رہی ہے۔ بارش کے پہلے اسپیل سے میں نہ صرف شہرکے نشیبی اور پرانے علاقے شدید متاثر ہوئے ہیں بلکہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) جیسی پوش آبادی میں بھی لوگوں کے معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
ڈیفنس کے بنگلوں، دکانوں، مارکیٹوں اور زیرِ زمین تعمیرات میں پانی جانے سے انہیں نقصان پہنچا ہے جب کہ شہریوں کو بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔
کراچی میں ڈیفنس-فیز ٹو کے رہائشی اکرم عباسی کا کہنا ہے کہ عید کے روز بارش کے بعد لوگوں کا گھروں سے نکلنا محال ہوچکا ہے۔ بارش کے باعث لاکھوں روپے مالیت کی گاڑیاں خراب ہوچکی ہیں۔ علاقہ کیچڑ میں ڈوبا ہوا ہے جب کہ گھر کے زیرِ زمین حصے میں پانی بھرنے کی وجہ سے سامان اور فرنیچر وغیرہ خراب ہوگیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کئی بار شکایات درج کرنے کے باوجود بھی بہت دن گزر گئے ہیں لیکن پانی نکالنے کے لیے ڈی ایچ اے کے اہلکار نہیں آئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اسی طرح کئی رہائشی علاقوں کے ساتھ ساتھ بخاری کمرشل اور دیگر تجارتی مراکز میں بھی صورتِ حال انتہائی دگرگوں ہے۔لوگوں کا کاروبار کرنا بارش ختم ہونے کے کئی روز بھی ممکن نہیں ہے۔ ایسے مناظر 2020 میں بھی بارش کے بعد نظر آئے تھے، جس کی وجہ سے یہاں سڑکوں اور گلیوں سے پانی 10 سے12 روز بعد مکمل طور پر نکالا جاسکا تھا۔
کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن کے منتخب نمائندے ریحان اقبال کا کہنا ہے کہ رواں ماہ بارش کے پہلے اسپیل کے بعد کئی علاقوں بشمول خیابانِ بخاری میں بہت برے حالات تھے۔ کئی روز بعد اب جاکر حالات کچھ کنٹرول میں آئے ہیں۔ پانی مکمل طور پر نکالنے میں اب بھی مزید کچھ وقت لگے گا جب کہ کچھ علاقوں اور گھروں میں بجلی تین روز گزرنے کے بعد بھی بند ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کئی گھروں کی زیرِ زمین تعمیرات میں بھرا ہوا پانی نکالنے میں کنٹونمنٹ بورڈ کے ساتھ فوج نے بھی مدد کی ہے۔
دو برس قبل ہونے والی بارش کے حوالے سے ریحان اقبال نے بتایا کہ 2020 کی بارش کا پانی نکالنے میں 10سے 15 روز لگے تھے۔ اس بار بھی پانی نکلنے میں چار سے پانچ روز لگ سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ برسوں کے مقابلے میں شاید کچھ بہتری تو آئی ہے البتہ کسی کے گھر چار پانچ روز پانی کھڑا رہے، بجلی غائب رہے تو اس شہری کی نظر میں تو یہ بہتری قابل قبول نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہش عید الاضحیٰ کے موقع پر بارش نے گھروں میں تباہی مچادی۔ کروڑوں کا سامان زیر زمین کمروں میں پانی چلے جانے کی وجہ سے خراب ہوا جب کہ نقل و حمل مشکل ہوگئی۔
ڈی ایچ اے کی کارکردگی پر انہوں نے کہا کہ یہاں ترقیاتی کام کرانا ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کا کام ہے، جس نے علاقے میں بارش کے نکاسی کے لیے اسٹورم واٹر ڈرینیج بنانے کا کام اب تک مکمل نہیں کیا ۔
اس حوالے سے انہوں نے مزید کہا کہ باقی علاقوں میں فوج کے ماتحت ادارے نیشنل لاجسٹک سیل (این ایل سی) کو کنٹریکٹ دیا جا چکا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ حالیہ بارش کے بعد کام کا آغاز کر دیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ خیابانِ اتحاد، خیابانِ شمشیر، خیابان ِمحافظ، خیابان ِمجاہد میں بارش کے پانی کی نکاسی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ اس طرح برساتی پانی خیابان بخاری میں جمع ہوجاتا ہے۔
ریحان اقبال کا کہنا تھا کہ برساتی پانی کی نکاسی کی منصوبہ بندی بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ ڈیفنس فیز سیون میں نالوں پر پلاٹ بنا دیے گئے ہیں۔ اسی طرح ڈی ایچ اے کے کئی علاقوں کی زمین سمندر اور نالوں میں مٹی ڈال ڈال کر حاصل کی گئی ہے، جس سے پانی کی نکاسی کا نظام متاثر ہوا ہے جب کہ سمندر میں پانی نہ جانے کی ایک اور وجہ اس موسم میں طغیانی ہے جس سے پانی سمندر میں نہیں جاتا۔
پانی سمندر میں کیوں نہیں جا رہا؟
دوسری جانب این ای ڈی یونیورسٹی میں پروفیسر اور ڈین فیکلٹی آف آرکیٹکچر اینڈ مینجمنٹ سائنسز ڈاکٹر نعمان احمد کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ کراچی کے ضلع جنوبی کا ہے، جہاں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) بھی واقع ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کراچی کی ٹوپو گرافی بتاتی ہے کہ یہ علاقہ چند ایک مقام پر پہاڑیوں کے علاوہ نشیبی علاقہ ہے اور بارش میں پانی کا دباؤ دیگر علاقوں کی نسبت یہاں زیادہ ہوتا ہے۔ دوسرا مسئلہ یہاں کی پلاننگ کا ہے۔ڈی ایچ اے نے جس طرح علاقے کی پلاننگ کی ہے اس میں قدرتی نالوں اور برساتی پانی کے بہاوؤ کا خیال نہیں رکھا گیا، خاص طور پر جو ترقیاتی کام بعد میں ہوئے ہیں، ان میں تو اس بات کا بالکل خیال نہیں رکھا گیا۔
ان کے مطابق بعض مقامات پر جہاں برساتی پانی سمندر میں جاکر گرتا ہے وہاں پر زمین کو حاصل کرنے کی کوشش کی گئی اور یوں نالوں کے آؤٹ فالز میں رکاوٹ آنے کی وجہ سے پانی کے سمندر میں گرنے کا عمل متاثر ہوا ہے۔
ڈاکٹر نعمان احمد کے مطابق ڈیفنس میں بڑی شاہراہیں، آس پاس کی گلیوں اور چھوٹی شاہراہوں سے اونچی رکھی گئی ہیں، بارش کی صورت میں پانی نچلی سڑکوں گلیوں سے ہوتا ہوا گھروں میں داخل ہوجاتا ہے اور اس پانی کو نکالنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دنیا بھر میں نشیبی علاقوں میں پانی کی نکاسی ممکن بنانے کے لیے ساتھ ساتھ نالیاں اور نالے بنائے جاتے ہیں لیکن ڈی ایچ اے میں پہلے تو یہ نظام سرے سے تھا ہی نہیں۔ 2004 میں یہ نظام بنانے کی کوشش کی گئی تو عین سڑک کے درمیان میں نالے تعمیر کردیے گئے جو تکنیکی طور پر انتہائی مضحکہ خیز عمل تھا ۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ نہ صرف ڈی ایچ اے بلکہ پورے شہر میں پانی کے قدرتی راستوں پر تعمیرات ہو چکی ہیں۔ پانی کے اخراج کا راستہ کم ہوگیا ہے اور ہر چند برس بعد شدت سے ہونے والی بارش کے نتیجے میں شہر کا بیشتر علاقہ ڈوب جاتا ہے۔
ڈاکٹر نعمان احمد کے مطابق کراچی کی اچھی بات یہ ہے کہ یہاں قدرتی ڈرینیج کا نظام آئیڈل ہے۔ شہر کا شمالی علاقہ اونچائی اور جنوبی علاقہ نشیب میں واقع ہے لیکن شہر بھر کے نالوں اور پانی کی قدرتی گزرگاہوں میں آبادیاں تعمیر کرکے جب کہ سمندر کو بھرائی کرکے خود اپنے لیے مصیبت کھڑی کی گئی ہے۔ اگر عام فہم استعمال کرکے بھی کراچی کے ڈرینیج کا نظام بنا لیا جاتا تو شہریوں کو یہ پریشانیاں نہ دیکھنی پڑتیں۔
کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ کے ترجمان عامر عرب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ اس بار شدید بارش کے باوجود کنٹونمنٹ بورڈ نے بہت جلد 90 فی صد کے قریب علاقہ برساتی پانی سے صاف کردیا ہے۔
ان کا دعویٰ تھا کہ مون سون کے پہلے اسپیل میں بارش معمول سے زیادہ اور کم وقت میں ہوئی البتہ گزشتہ برسوں کی تدابیر کے باعث اس سال فائدہ یہ ہوا کہ کم وقت میں پانی سے صاف کرلیا گیا جب کہ اس وقت بھی سڑکیں اور شاہراہیں کلیئر ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ صرف چند کمرشل علاقوں میں کچھ مقامات پر پانی کی نکاسی ہونا باقی ہے اور امید ہے کہ 24 سے 48 گھنٹوں میں یہ علاقے بھی کلیئر ہوجائیں گی۔
عامر عرب کے خیال میں بارش زیادہ ہونے کی وجہ سے اس دفعہ پانی کھڑا ہوا ۔ اگر یہ بارشیں 100 یا 150 ملی میٹر تک بھی ہوتیں تو اس حساب سے چیزیں کنٹرول میں رہتی ہیں البتہ چند گھنٹوں میں 200 ملی میٹر سے زائد بارش کی وجہ سے حالات خراب ہوئے ۔
محکمہ موسمیات کے مطابق مون سون کے پہلے اسپیل میں، جو چار جولائی سے 11 جولائی تک جاری رہا، شہر کے بعض علاقوں میں 200 ملی میٹر سے بھی زیادہ بارش ریکارڈ کی گئی۔
جن علاقوں میں زیادہ بارش ہوئی ان میں مسرور بیس میں324 ملی میٹر، کیماڑی میں 270ملی میٹر، پی ایف بیس فیصل میں 280 ملی میٹر، لانڈھی میں 213 ملی میٹر اور گلشن حدید 251 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی جب کہ ڈی ایچ اے میں اس عرصے کے دوران 340 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی تھی۔
کراچی میں ڈی ایچ اے کا علاقہ، کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ کے ماتحت علاقوں میں آتا ہے ۔ اس کا انتظام پاکستان کی فوج کے ادارے ملٹری لینڈ اینڈ کنٹونمنٹس کے پاس ہے جس کا سربراہ بریگیڈئیر رینک کا فوجی افسر ہوتا ہے جب کہ منتخب عوامی نمائندے بھی بورڈ کا حصہ ہوتے ہیں۔
اسی طرح ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے ایگزیکٹو بورڈ کا صدر پاکستان کی فوج کی کور فائیو کا حاضر سروس کمانڈر ہوتا ہے، جس کا رینک لیفٹننٹ جنرل ہوتا ہے اور اسے کور کمانڈر کراچی بھی کہا جاتا ہے۔