پاکستان کے شہر کراچی میں چند روز قبل مسیحی لڑکی کو زبردستی اسلام قبول کرانے اور کم عمری میں نکاح کے الزامات کی تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔ تاہم لڑکی کے والدین کا کہنا ہے کہ اُن کی بیٹی کو بہلا پھسلا کر ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا۔
مسیحی لڑکی کی والدہ ریٹا مسیح کا کہنا ہے کہ میں جب اپنی بیٹی آرزو راجہ سے ملی تو مجھے اس کی باتیں سن کر بہت دکھ ہوا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ریٹا مسیح نے کہا کہ میں نے 13 برس اس کی پرورش کی اور اس شخص نے 20 دن میں اسے اپنے ہاتھوں میں کر لیا۔ اس وقت میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں اپنے ساتھ کوئی انتہائی اقدام کر لوں۔
کراچی کی ریلوے کالونی کی رہائشی مسیح لڑکی کے والدین کا دعویٰ ہے کہ ان کی بیٹی کو محلے کے ایک 44 برس کے آدمی نے جبری مذہب تبدیل کروا کر شادی کی ہے۔ جب کہ عدالت میں لڑکی نے یہ بیان دیا تھا کہ مذہب کی تبدیلی اور شادی کے لیے اس پر کوئی دباؤ نہیں تھا۔ یہ قدم اس نے اپنی مرضی سے اٹھایا تھا۔
لڑکی کے والدین اپنے تین بچوں کے ہمراہ اس وقت اپنے گھر سے دور کہیں اور رہائش پذیر ہیں۔
لڑکی کے والد راجہ لعل مسیح نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں خیال ظاہر کیا کہ ان کی بیٹی کو کسی قسم کا لالچ دے کر ورغلایا گیا ہے۔
لعل راجہ کے مطابق آرزو 13 برس کی ہے۔ چھٹی جماعت کی طالبہ ہے۔ وہ اپنا اچھا برا نہیں سمجھتی۔ نہ جانے اس کو ورغلانے والے علی اظہر نے اسے ایسا کیا لالچ دیا کہ وہ اس کے ساتھ چلی گئی۔ اور یہ تب تک معلوم نہیں ہو سکتا جب تک بیٹی سے ہماری ملاقات نہیں ہو جاتی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان کی بیٹی کمسن ہے اور 44 برس کا شخص اسے اپنی بیوی بنائے ہوئے ہے۔ عمر کا فرق تو دیکھا جائے۔
ان کے بقول آپ کسی کے بھی بچے کو کوئی لالچ دیں۔ تو وہ اسی کے ساتھ چل پڑے گا۔ کوئی کھانے پینے کی چیز یا موبائل دیں۔ یا والدین مالی اعتبار سے بہتر نہیں ہیں اور اچھے کپڑے نہیں دے پا رہے۔ اس طرح کی 100 باتیں بچوں کے ذہن میں ڈالی جا سکتی ہیں۔
ریٹا مسیح کے مطابق ان کی بیٹی اکثر فرمائش کیا کرتی تھی کہ اسے پیسٹری چاہیے۔ اس نے گڑیا کی خواہش ظاہر کی تھی جو اسے لا کر دی۔ وہ بہت خاموش طبع تھی۔ یہاں تک کہ وہ بہن بھائی سے بھی کھل کر کسی بات کا اظہار نہیں کرتی تھی۔
ان کے مطابق اگر ایسا کوئی معاملہ تھا بھی تو ماں ہونے کے ناطے انہیں پتا چل جاتا۔ انہیں لگتا ہے کہ وہ آدمی اتنی بڑی عمر کا تھا میری بیٹی خوب صورت اور کمسن تھی۔ اس نے سوچا ہو گا کہ اسے اتنی کم عمر لڑکی تو ملے گی نہیں۔ تو اس نے اسے حاصل کرنے کے لیے یہ سب کیا۔
گزشتہ ماہ 13 اکتوبر کو مسیحی لڑکی کی لاپتا ہونے کی ایف آئی آر اس کے اہلِ خانہ نے درج کرائی تھی۔ لیکن اسی شام انہیں یہ شک ہوا کہ ان کی بیٹی کا اغوا محلے کے ایک شخص نے کیا ہے جو صبح سے ہی غائب تھا۔ اہل خانہ کہ مطابق وہ شخص 44 سالہ علی اظہر تھا۔
شور شرابہ ہونے اور اس شخص کے گھر والوں سے لڑائی کے اگلے روز پولیس نے تھانے بلا کر راجہ لعل مسیح کو نکاح نامہ پیش کیا جس کے بعد 27 اکتوبر کو عدالت میں ریٹا مسیح کی ملاقات چند لمحوں کے لیے اپنی بیٹی سے اس وقت کرائی گئی، جب اس کے اردگرد وکیل اور پولیس اہلکاروں کا رش تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ملاقات میں مسیحی لڑکی نے اپنی ماں کے سامنے کہا تھا کہ اس نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کیا ہے۔
ریٹا کا کہنا تھا کہ ان کی بیٹی یہ سب کچھ دباؤ میں آ کر کہہ رہی تھی۔
انسانی حقوق کی تنظیم 'سینٹر فار سوشل جسٹس' کے مطابق گزشتہ 16 برس میں 55 مسیحی لڑکیوں کے جبری مذہب تبدیلی کے کیسز سامنے آئے۔ جن میں اکثر پنجاب سے ہیں۔ سندھ میں یہ شکایات ہندو برادری کی طرف سے آتی ہیں کہ ان کی بچیوں کو جبری مسلمان کیا جاتا ہے۔
کراچی میں قبل ازیں ایک اور مسیحی لڑکی کی مذہب تبدیلی کے معاملے پر بھی عدالتی کارروائی جاری ہے۔ کراچی کی 14 سالہ نیہا کم عمری سے انصاف کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی نیہا 13 برس کی تھیں جب انہیں ان کی نو مسلم خالہ اسپتال لے جانے کی غرض سے جھوٹ بول کر ایک جگہ لے گئیں جہاں انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر نیہا کا زبردستی نکاح اپنے 50 سالہ رشتے دار سے کرا دیا تھا۔
نیہا کے والد ذہنی مریض ہیں جب کہ ان کی والدہ لوگوں کے گھروں میں صفائی ستھرائی کا کام کرتی ہے۔ جس شخص سے اس کی زبردستی شادی کرائی گئی اس کے خاندان کے بااثر ہونے کے سبب والدین بیٹی کا ساتھ نہیں دے رہے۔ نیہا کی مدد ان کے تایا کر رہے ہیں۔
جبری مذہب تبدیلی اور کم عمری میں شادیوں پر اقلیتوں کی شکایات پر گزشتہ برس پارلیمانی کمشن تشکیل دیا گیا تھا جس کے چیئرمین سینیٹر انوار الحق کاکڑ ہیں۔
سینیٹر انوار الحق کاکڑ کے مطابق ایسے کیسز کی تعداد اتنی زیادہ نہیں جتنا بیان کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے پاکستان کو بدنام کیا جا رہا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کمشن کی رائے ہے کہ نو عمری میں مذہب کی تبدیلی پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ سندھ میں کم عمری میں شادی کے خلاف موجود قانون بہت اچھا ہے لیکن وہ اپنے منطقی انجام تک اس لیے نہیں پہنچا کہ اس میں تمام اسٹیک ہولڈرز شامل نہیں۔
سندھ میں خواتین کی بہبود کی وزیر شہلا رضا کے مطابق ایسی شادیاں یک طرفہ نہیں ہوتیں۔ دونوں جانب سے ہم آہنگی ہونے کے سبب ہی ایسا ممکن ہو پاتا ہے۔ لیکن جہاں یہ شائبہ ہو کہ لڑکی پر دباؤ ڈال کر ایسا کیا گیا ہے۔ وہاں حکومت اپنا کام ضرور کرتی ہے۔ یہاں تک کہ تمام ہی ایسے کیسز میں لڑکی کو بازیاب کرایا جا چکا ہے۔
شہلا رضا کا کہنا ہے کہ جب سندھ اسمبلی سے کم عمری میں شادی پر پابندی کا قانون پاس ہوا تو اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا کہ سندھ اسمبلی غیر اسلامی قانون پاس کر رہی ہے۔
ان کے مطابق سندھ کے کچھ جوڑے پنجاب جا کر بھی شادی کر لیتے ہیں جہاں عمر کی قید 16 برس ہے۔ جب کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں تو شادی کی عمر کے حوالے سے کوئی ایسا قانون بھی نہیں ہے۔
شہلا رضا کہتی ہیں کہ بازیاب ہونے والی لڑکیوں نے عدالت میں جا کر یہ بیان دیا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے تو پھر اسلامی قوانین کے تحت بلوغت کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں فائدہ مل جاتا ہے۔
انہوں نے کہ ایسے کیسز اچانک نہیں ہوتے۔ لڑکی کے گھر والوں کو معلوم ہوتا ہے۔ وہ سختی بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن ایک دن لڑکی کو راستہ مل جاتا ہے۔ یہ دیکھنے میں آیا ہے 99 فی صد کیسز میں دونوں جانب سے رضامندی اور ہم آہنگی موجود ہوتی ہے۔
حالیہ کیس میں لڑکی کے کم عمر ہونے کی دستاویزات اس کے والدین نے عدالت میں پیش کیں۔ نادرا کے سرٹیفیکٹس کے اصل ہونے کی جانچ پڑتال کے علاوہ عدالت نے لڑکی کی عمر کے تعین کے لیے میڈیکل بورڈ بھی تشکیل دیا، جس کے تحت لڑکی کی عمر 14 سال سامنے آئی۔
اس کے بعد لڑکی سے شادی کرنے والے علی اظہر پر چائلڈ میرج ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
علی اظہر کے وکیل نظار تنولی کے مطابق آرزو کی شادی مذہبی بنیاد پر درست ہوئی ہے۔ کیوں کہ وہ لڑکی بالغ ہے۔ عاقل بالغ ہونے کے ناطے وہ شادی کر سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک عمر کا تعلق ہے تو یہ چیز اس وقت تک آڑے نہیں آ سکتی جب تک میڈیکل رپورٹ میں یہ بات سامنے نہ آ جائے کہ وہ بالغ نہیں ہے۔
نظار تنولی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے آئین میں بھی یہ بتایا گیا ہے کہ کوئی ایسا قانون بنا دیا جائے جو اسلام سے متصادم ہو۔ تو اسلام کے قوانین ہی درست سمجھے جائیں گے اور وہی لاگو ہوں گے۔
دوسری جانب آرزو کے والدین کی جانب سے کیس لڑنے والے وکیل اور سماجی رہنما جبران ناصر ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ لڑکی کی عمر کم ثابت ہونے کے بعد اسے یہ اختیار ہی نہیں تھا کہ وہ یہ شادی کر سکے۔
ان کے بقول یہ شادی 2013 کے قانون کے تحت ایک جرم ہے اور دوسری بات یہ کہ اگر ہم مذہب کی تبدیلی کے حوالے سے دین کی بات بھی کرتے ہیں۔ تو اس پر لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کہتا ہے کہ مذہب دل کا معاملہ ہوتا ہے۔ دل کے معاملے پر قانون سازی نہیں ہوتی۔
جبران ناصر نے کہا کہ کسی بھی فعل کو قانونی جامہ پہنانے کے لیے لڑکی کی عمر 18 برس ہونا ضروری ہے۔
جبران ناصر کہتے ہیں کہ لڑکی کے نکاح نامے میں ایک گواہ پولیس والا ہے۔ جو جانتا ہے کہ بچی چھوٹی ہے۔ سندھ میں چائلڈ میرج ایکٹ نافذ ہے۔ تو وہ اہلکار گواہ بن کر پھر بھی ایسی شادی کرا رہا ہے۔
ان کے مطابق اہم بات یہ ہے کہ مفتی احمد جان رحیمی، عروج کے کیس میں اسلام قبول کرا رہے ہیں اور نکاح بھی پڑھا رہے ہیں۔ جب کہ وہ نیہا کے کیس میں بھی یہ کام کر چکے ہیں۔
جبران ناصر کے مطابق کچھ گم نام قسم کے مفتی ہیں جن کے پاس نہ کوئی سند ہے اور نہ ہی کوئی ڈگری اور مرتبہ ہے۔ لیکن ان ہی کی وجہ سے اسلام کے لیے ہونے والا اچھا کام بھی بدنام ہو رہا ہے۔
واضح رہے کہ مسیحی لڑکی اس وقت عدالت کے حکم پر دارالامان میں رہ رہی ہے۔ اس کے والدین اپنی بیٹی کی واپسی چاہتے ہیں۔ جب کہ وہ اپنے مبینہ شوہر کے ساتھ رہنے کی خواہش مند ہے۔