معروف بھارتی صحافی دلیپ پڈگاؤنکر ، انفارمیشن کمشنر ایم ایم انصاری اور جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کی سابق پروفیسر رادھا کمار کو حال ہی میں بھارتی وزارتِ داخلہ نے شورش زدہ کشمیر میں آزادی پسند گروپوں اور دوسرے مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے سرکردہ کشمیریوں سے بات چیت کرنے کے لیے رابطہ کار کے طور پر مقرر کیا ہے۔
ہفتے کو بھارتی کشمیر کے ایک ہفتے کے اپنے دورے پر سری نگر پہنچنے پر پڈگاؤنکر نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اور اُن کے ساتھی اگرچہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے ، وہ چاہیں گے کہ تمام مکاتبِ فکر کے لوگوں سے مل کر یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ وہ مسئلے کا کیا اور کس طرح حل چاہتے ہیں۔
لیکن، سرکردہ آزادی پسند لیڈر سید علی شاہ گیلانی نے کشمیر پر رابطہ کاروں کو مقرر کرنے کی نئی دہلی کے اقدام ، اُن کے بقول، دنیا کو بیوقوف بنانے کی ایک کوشش ہے، اور کہا کہ یہ وقت ضائع کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔
استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے بیشتر دوسرے کشمیری لیڈروں اور جماعتوں نے بھی رابطہ کاروں سے عدم تعاون کا عندیا دیا ہے، جب کہ حکمراں اتحاد میں شامل نیشنل کانفرنس اور کانگریس کو چھوڑ کر باقی بھارت نواز جماعتوں نے بھی اِس سلسلے میں نئی دہلی پر غیرسنجیدہ ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔
بھارتی وزیرِ داخلہ پی چدم برم نے اُن کی اِس نکتہ چینی کو غیرضروری قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک مزید رابطہ کار کو آگے چل کر شامل کیا جا سکتا ہے جِس کی سیاسی ساخت پر سوال اُٹھانے کی گنجائش موجود نہ ہوگی۔
دریں اثنا، بھارتی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ اُس نے کنٹرول لائن پر دراندازی کی ایک کوشش کو ناکام بناتے ہوئے تین مسلمان عسکریت پسندوں کو ہلاک کردیا ہے۔یہ واقعہ سنیچر کو سری نگر سے تقریباً 130کلومیٹر دور واقع اُڑی سیکٹر میں پیش آیا۔
اُدھر، سرکردہ آزادی پسند لیڈر سید شبیر احمد شاہ نے جیل سے پیرول پر رہا ہونے سے انکار کردیا ہے۔