اسرائیل اور حماس میں جاری جنگ میں دونوں طرف کے شہری ایک بڑے انسانی المیے سے دوچار ہیں اور لوگ جس اذیت میں ہیں، اس کی متعدد مثالیں سامنے آرہی ہیں۔
ایک 21سالہ اسرائیلی خاتون نے، جس کے والد، ، چھوٹی بہن، کزن اور دادی حماس کے ان کے قصبے کیبتز پر گزشتہ ہفتے کے حملے کے بعد لاپتا ہوگئے تھے، غمزدہ انداز میں کہا، " میں نے ویڈیو میں دیکھا تھا کہ حماس کے لوگ میرے 12 سالہ بھائی کو لے جارہے تھے۔ کیا وہ زندہ بھی ہے؟ "
گایا کالدیرون جب صبح چھ بجے جاگیں تو تل ابیب میں ہر طرف سائرن بجنے کی آواز آرہی تھیں۔ انہوں نے چھوٹے سے قصبے نیر اوز میں مقیم اپنے خاندان کی خیریت معلوم کرنے کے لیے فون کیا۔
کالدیرون نے وائس آف امریکہ کی اردو سروس سے تل ابیب سے بات کرتے ہوئے بتایا, "جب میں نے اپنی ماں اور والد کو کال کی تو سب کچھ اچھاتھا۔ میرے والد، چھوٹی بہن اور چھوٹا بھائی ایک محفوظ مقام پر جا چکے تھے جبکہ میری والدہ اور بڑے بھائی ایک الگ گھر میں موجود تھے۔
لیکن پھر میری بہن کی طرف سے ایک پیغام آیا کہ ان کی قیام گاہ کے قریب سے گولیا ں چلنے کی آواز آرہی تھی اور وہ خوف زدہ تھی۔ اس کے چند سیکنڈز بعد وہ غائب ہوگئی۔"
SEE ALSO: اسرائیلی شہری: فولادی باڑ سے ہم خود کو محفوظ سمجھتے تھے، لیکن وہ ہمارا وہم تھااس کے بعد، کالدیرون نے بتایا کہ اس نے اپنی دادی اماں کو کال کرنا شروع کیا جوکہ ان کے ایک کزن کے ساتھ اسی علاقے میں رہائش پذیر تھیں۔
ان کی دادی نے بتایاکہ حماس کے جنگجو ان کے گھر میں گھس آئے تھے اور وہ چیزوں کو ادھر ادھر پھینک رہے تھے۔ اس بات کے بعد کالدیرون کی دادی نےبھی فون کا جواب نہ دیا۔
کالدیرون کی ماں اور اس کے بڑے بھائی محفوظ ہیں لیکن ان کی چھوٹی بہن، بھائی ، کزن اور دادی ابھی تک لاپتا ہیں۔
کالدیرون نے استدعا کی،" میرے خاندان کو واپس لادیں، مجھے مدد کی ضرورت ہے، مجھے اور کچھ نہیں چاہیے۔"
اسلحے سے لیس حماس کےجنگجووں نے گزشتہ ہفتے کے حملے کے دوران بچوں، خواتین، اور عمر رسیدہ افراد سمیت 150 لوگوں کو یرغمال بنایا تھا جنہیں غزہ میں کسی نامعلوم مقام پر رکھا گیا ہے۔ ان کا مستقبل غیر یقینی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ہفتے کے روز ایک اور ا سرائیلی شہری اوشر سٹون نے صبح آٹھ بجے اپنے تین دوستوں کے ہمراہ نووا میوزک فیسٹیول پر حماس کے حملے سے بچ کر جنوبی اسرائیل میں ایک محفوظ گھر میں پناہ لی۔
شوہم شہر سے وائس آف امریکہ کی اردو سروس سے بات کرتے ہوئے 22 سالہ سٹون نے بتایا، "میں سمجھا تھا کہ یہ میر ی زندگی کا آخری دن تھا کیونکہ گولیاں چلنے کی آوازیں قریب سے آرہی تھیں۔"
سٹون نے کہا کہ انہوں نے اپنے والدین کو نہیں بتایا تھا کہ وہ کسی پارٹی میں جارہا تھا، اور پھر میں نے اپنے آپ سے کہاکہ بس آج یہ سب کچھ ہونا تھا۔
انہوں نے کہا ہر لمحے کوئی بھی آواز ، چاہے وہ بلند ہو یا کم ہو، مجھے خوف سے دہلا دیتی ہے جیسا کہ ہفتے کی صبح گولیوں اور راکٹوں کے چلنے کے وقت ہوا تھا۔
"اب میں رات میں سوتے ہوئے دس سال کےبچے کی طرح ڈرتا ہوں ۔"
اسرائیل کی ڈیفینس فورسز کے ترجمان لیفٹنٹ کرنل جوناتھ کانکرس نے بتایا کہ حماس جنگجوؤں کے حملے میں اب تک 1,300 اسرائیلی ہلاک ہوچکے ہیں۔
اسرائیل کی طرف سے ہفتے کو شروع کی گئی فضائی حملوں کی مہم میں غزہ میں اب تک 1,500 لوگ مارے جا چکے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
کیااسرائیل نےغزہ پر حملوں میں سفید فاسفورس استعمال کیا ہے؟
اسرائیلی فوج نے جمعےکو ان الزامات کی تردید کی ہے کہ اس نے غزہ میں سفید فاسفورس کو بطور ہتھیار استعمال کیا ہے۔اس سے قبل انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے الزام لگایا تھا کہ اسرائیلی فوج نے غزہ اور لبنان میں سفید فاسفورس کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔
سفید فاسفورس جہاں گرتا ہے آگ لگا دیتا ہے، انسانی ہڈیوں تک کو جلا سکتا ہےاور اس سے متاثرین مستقل معذوری کا شکار ہو سکتے ہیں ۔تنظیم کا کہنا ہے کہ اس مادے کا استعمال عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
ہیومین رائٹس واچ، برطانیہ کی یاسمین احمد نے کہا ہے کہ ہم نے دو واقعات کی تصدیق کی ہے کہ اسرائیلی فوج نےگولہ باری میں سفید فاسفورس استعمال کیا۔ایک غزہ کے ساحلی شہر میں، اور دوسرےاسرائیل اور لبنان کی سرحد پراپنے موقف پر قائم ہے۔
غزہ میں فلسطینیوں کی صورتحال
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ غزہ میں اب تک 3 لاکھ 40,000 لوگ بے گھر ہوچکے ہیں۔ ان میں سےدو تہائی افراد نے اقوم متحدہ کے اسکولوں میں پناہ لے رکھی ہے۔
غزہ سے بات کرتے ہوئے ایک نوجوان فلسطینی نے وائس آف امریکہ کی اردو سروس کو بتایا کہ ہر گھنٹے، ہر منٹ اور ہر لمحے ہم فضا ، زمین اور سمندر سے دھماکوں کی آوازیں سن رہے ہیں۔
ایک اور شہری نے بتایا کہ اسرئیل کے حالیہ حملوں کے بعد مغربی غزہ کی گلیوں کوپہچاننامشکل ہوگیا ہے۔
ایک بیس سالہ فلسطینی خاتون پلیستا الاقاد نے مغربی غزہ سے وائس آف امریکہ کی اردو سروس کو بتایا، "سانس لینا دشوار ہوگیا ہے اور بارود کی وجہ سے آسمان دن رات تاریک رہتا ہے۔"
انہوں نے بتایا،"میں نے ساری عمر غزہ میں گزاری ہے اور اب میں اس کی گلیوں کو نہیں پہچان سکتی ۔"
انہوں نے بتایا کہ زخمیوں اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ پانی، بجلی، خوراک اور تمام ضروریات زندگی ختم ہورہی ہیں۔
SEE ALSO: اسرائیل فلسطینی تنازع پر جنگی جرائم کے کن بین الاقوامی قوانین کا اطلاق ہوتا ہے؟انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس نے جمعرات کو خبردار کیا تھا کہ بجلی کے بغیر غزہ کےاسپتالوں کا مردہ خانوں میں تبدیل ہونے کا خطرہ ہے۔
غزہ کے واحد بجلی گھر کا بدھ کو ایندھن ختم ہوگیا اور بیک اپ جنریٹرز کچھ ہی گھنٹوں میں کام کرنا بند کردیں گے۔
اسرائیل کی طرف سے مکمل ناکہ بندی غزہ پر فضائی اور توپوں سے حملوں کے بعد طبی مراکز میں کام حد سے زیادہ بڑھ گیا ہے۔
اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ غزہ میں اس وقت تک بجلی اور باقی ضروریات اور انسانی امداد کو بحال نہیں کرے گا جب تک حماس ہفتے کے حملے کے دوران 150 یرغمال بنائے گئے اسرائیلیوں کو رہا نہیں کرتی۔