پاکستان کی سپریم کورٹ میں ایک کیس کی سماعت کے دوران میڈیا کی آزادی سے متعلق ججز کے ریمارکس کے بعد سوشل میڈیا پر مختلف تبصرے کیے جا رہے ہیں۔
صحافی اس معاملے پر سپریم کورٹ کے ریمارکس کی حمایت کرتے نظر آ رہے ہیں۔ جب کہ سوشل میڈیا پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی مخالفت اور حمایت میں بیانات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی رائے شماری
جمعرات کو سپریم کورٹ میں بلدیاتی انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت جاری تھی کہ دوران سماعت میڈیا کی آزادی کی بات ہوئی اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ "مجھے یہ کہنے میں عار نہیں ہے کہ ملک میں میڈیا آزاد نہیں ہے۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں کیسے میڈیا کو کنٹرول کیا جا رہا ہے؟ کیسے اصل صحافیوں کو باہر نکالا جا رہا ہے؟
انہوں نے ریمارکس دیے کہ ملک کو منظم طریقے سے تباہ کیا جا رہا ہے۔ جب ذرائع ابلاغ تباہ ہو جائیں تو ملک تباہ ہوتا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ صبح لگائے گئے پودے کو کیا شام کو اکھاڑ کر دیکھا جاتا ہے کہ جڑ کتنی مضبوط ہے۔
اس موقع پر جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ججز کو ایسی گفتگو سے احتراز کرنا چاہیے لیکن کیا کریں ملک میں آئیڈیل صورتِ حال نہیں ہے۔ ہم کب تک خاموش رہیں گے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ ہر مخالف غدار اور حکومتی حمایت کرنے والا محبِ وطن بتایا جا رہا ہے۔ ملک جمہوریت کے لیے بنایا گیا تھا۔ جمہوریت کھوئی تو آدھا ملک بھی چلا گیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ میڈیا والے مار کھا رہے ہیں۔ یہ نہیں معلوم کس نے کس کو اٹھا لیا۔ اگر نہیں معلوم تو حکومت گھر جائے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل خالد جاوید سے استفسار کیا کہ کیا پاکستان میں میڈیا آزاد ہے؟ ہاں یا ناں میں جواب دیں۔
اٹارنی جنرل نے درخواست کی کہ اقرار یا انکار کے علاوہ کوئی آپشن دیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کمرۂ عدالت میں موجود میڈیا والوں سے ریفرنڈم کرا لیتے ہیں۔
انہوں نے میڈیا نمائندوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ میڈیا والے ہاتھ کھڑا کریں کہ کیا میڈیا آزاد ہے۔ اس موقع پر میڈیا نمائندوں میں سے کسی نے بھی ہاتھ کھڑا نہ کیا۔
اس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے میڈیا پر پابندی کا سوال کیا تو تمام میڈیا نمائندگان نے ہاتھ کھڑے کر دیے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میڈیا پر پابندی لگانے والے مجرم ہیں۔ ان کو جیل میں ہونا چاہیے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارا آئین میڈیا کی آزادی کا ضامن ہے۔ لیکن یہاں میڈیا کو کنٹرول کرکے اپنی تعریف سن کر خوش ہو رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ماہر نفسیات کے پاس جانا چاہیے۔
میڈیا گروپس کی مالی حالت دو سال پہلے کیا تھی اور اب کیا ہے؟
سینئر صحافی سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی دو مختلف آوازیں اور دو مختلف اظہار ہیں۔ ایک اظہار یہ ہے کہ میڈیا پر پابندی کا ریفرنڈم ہوا لیکن اکثریتی سوچ شاید یہ نہیں ہے جس کی وجہ سے میڈیا کی آزادی کے لیے کوئی سماعت نہیں ہوئی اور نہ ہی کوئی حکم جاری ہوا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سہیل وڑائچ نے کہا کہ میں میڈیا کو آزاد نہیں سمجھتا گزشتہ دو برس کے دوران صحافیوں پر مالی دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ مختلف چینلز کو بند کیا گیا، ان کے صحافیوں کو نکالا گیا۔
انہوں نے کہا کہ صرف اتنا دیکھ لیں کہ میڈیا گروپس کی مالی حالت دو سال پہلے کیا تھی اور اب کیا ہے۔
ان کے مطابق اداروں کو لوگوں کو نکالنا پڑ رہا ہے۔ تنخواہوں پر کٹ لگ رہا ہے اور یہی وہ دباؤ ہے جس کی وجہ سے آپ کہہ سکتے ہیں کہ میڈیا زنجیروں میں ہے۔ اس سے نکلنے کے لیے کوشش ہی حل ہے۔
سہیل وڑائچ نے کہا کہ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔ میڈیا نے یہیں رہنا ہے اور اس کی آزادی نے بھی۔
انہوں نے کہا کہ ہر مخالف آواز پر غداری کا لیبل لگا دینا اور ہر حامی کو محبِ وطن سمجھنا کسی طور پر بھی ملک کے لیے بہتر نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی اس سوچ کو محسوس کر لیا ہے۔ مخالفین کو غدار کہنے کا رواج بڑھتا جا رہا ہے۔ ہر مخالف پر کوئی نہ کوئی لیبل لگا دیا جاتا ہے۔
'ٹی وی چینلز کے ریکارڈ پروگرامات کو سینسر کرا دیا جاتا ہے'
صحافیوں کی ملک گیر تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے جنرل سیکرٹری ناصر زیدی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا پر پابندی اور قدغنیں اب ایک عام سے بات بنتی جا رہی ہے اور اس بارے میں سپریم کورٹ کے ریمارکس اصل صورتِ حال کی نشاندہی کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ حکومت روز بروز اپنا کنٹرول بڑھاتی جا رہی ہے۔ ٹی وی چینلز کے ریکارڈ پروگرامات کو سینسر کرا دیا جاتا ہے۔ پروگرامات کے مہمانوں پر نظر رکھی جاتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے بقول مخالفین کی آواز کو روکنے کے لیے میڈیا پر دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ ایسا پاکستان کی 72 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آزادیٔ صحافت اور ورکرز کے مسائل تو ایک طرف رہے اب تو ادارتی کنٹرول بھی حکومتی ادارے اپنے کنٹرول میں لیتے جا رہے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر ایڈوئزریز، پیمرا کے حکم نامے جاری کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ بھی آنکھیں کھولے ہوئے ہے اور وہ بھی اس صورتِ حال کو دیکھ رہی ہے کہ کس طرف میڈیا کو کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کی آبزرویشن پاکستان میں پریس کی اصل صورتِ حال کی نشاندہی ہے۔
پاکستان میں آزادیٔ صحافت کے معاملے پر وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات شبلی فراز کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کسی اخبار یا چینل کو موجودہ دور حکومت میں بند نہیں کیا گیا اور ان پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت میڈیا کی آزادی کے لیے ہر ممکن تعاون کر رہی ہے۔