ایم کیو ایم کی علیحدگی کے کراچی پر اثرات

ایم کیو ایم کی علیحدگی کے کراچی پر اثرات

جس روز سے ایم کیوایم نے حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا ہے کراچی میں ایک عجیب سی فضاء قائم ہے۔تاجر برادری کا گمان ہے کہ چونکہ ایم کیو ایم اور اے این پی کے اختلافات ابھی ختم بھی نہیں ہوئے تھے کہ اب پیپلزپارٹی بھی متحدہ کے سامنے آکھڑی ہوئی ہے لہذا آنے والے وقت کے بارے میں سب کو ایک انجان سا خدشہ لگا ہوا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں امن و امان کی صورتحال پر قابو پانا کسی ایک سیاسی جماعت کے بس کی بات نہیں ، اس کے لئے پیپلزپارٹی کو ہر حالت میں ایم کیو ایم اور اے این پی کا تعاون درکار ہو گالیکن اگر ایسا نہیں ہو تا تو شر پسند قوتوں اور دہشت گردوں کے لئے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا آسان ہو سکتا ہے ۔

ماہرین کو خدشہ ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کی حکومت سے علیحدگی سے سب سے زیادہ کراچی کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے ۔سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق ماضی کی طرح ایک بار پھر شہر میں دونوں جماعتوں کے اختلافات کا فائدہ اٹھانے کے لئے دیگر شر پسند قوتیں بھی سرگرم ہو سکتی ہیں اور امن و امان کی صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے جس پر قابو پانا حکمراں جماعت پیپلزپارٹی کے لئے سب سے بڑا مسئلہ بن سکتا ہے ۔

موجودہ حکومت کے قیام کے بعد حکمراں جماعت پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان ماضی قریب میں کراچی میں طالبانائزیشن ، ٹارگٹ کلنگ ، حیدرآباد ڈویژن کی پرانی حیثیت سے متعلق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے بیان ، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ، بلدیاتی انتخابات اور آر جی ایس ٹی سمیت دیگر معاملات پر شدید اختلافات رہے ہیں جن پر ایم کیو ایم نہ صرف قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اجلاسوں کا بائیکاٹ کرتی رہی ہے بلکہ اس کی جانب سے حکومت سے علیحدگی کے بیانات بھی آتے رہے ۔ سابق صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کے متنازعہ بیان پر دونوں جماعتوں میں 27 جنوری دو ہزار دس سے چار مئی دو ہزار دس تک علیحدگی بھی دیکھنے میں آئی۔

مبصرین کہتے ہیں کہ اس تمام عرصے کے دوران قابل غور بات یہ بھی ہے کہ جب بھی دونوں جماعتوں میں اختلافات یا علیحدگی ہوئی کراچی میں امن و امان کی صورتحال مسئلہ بن گئی ۔اس کی واضح مثال دونوں جماعتوں کی وفاق میں علیحدگی کا عرصہ ہے جس میں کراچی میں پرتشدد علاقوں میں تقریباً334 افراد لقمہ اجل بنے جن میں سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکن بھی شامل ہیں ۔

27 دسمبر دو ہزار دس سے اکتیس دسمبر دو ہزار دس تک 14 افراد قتل ہوئے۔ اس کے علاوہ جنوری میں 73 ، فروری میں 30 ، مارچ میں 157 اور اپریل 2011ء میں ساٹھ افراد کو نامعلوم قاتلوں کے ہاتھوں موت کو گلے لگانا پڑا جبکہ مئی 2011ء کے آغاز میں ایم کیو ایم کی وفاقی کابینہ میں واپسی پر قتل و غارت کے واقعات میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ اس مہینے 19 لوگ لقمہ اجل بنے۔

کراچی میں ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے علاوہ تیسری بڑی قوت عوامی نیشنل پارٹی ( اے این پی ) ہے ۔یہ اب بھی پیپلزپارٹی کی اتحادی ہے۔جون میں ایم کیو ایم اور اے این پی کے درمیان اختلافات عروج پر رہے ۔ان اختلافات کے نتیجے میں شہر میں فائرنگ اور پرتشدد واقعات ہوئے جن میں 119افراد ہلاک ہوگئے۔