'شر پسند جناح ہاؤس سے حساس دستاویزات لے گئے جو فوج ہی برآمد کرے گی'

وفاقی وزیر داخلہ اور مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما رانا ثناء اللہ کہتے ہیں کہ اگر اب عمران خان سے مذاکرات کیے تو شہدا کے لواحقین کی جانب سے سخت ردِعمل آئے گا۔ لیکن اس کے باوجود عمران خان سنجیدہ ہیں تو وہ شہباز شریف سے رابطہ کر سکتے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ نو مئی کے واقعات کے دوران شر پسند عناصر جناح ہاؤس سے، جو کور کمانڈر کا گھر بھی ہے، لیپ ٹاپ اور دیگر حساس دستاویزات بھی لوٹ کر لے گئے ہیں جنہیں فوج ہی برآمد بھی کرے گی۔

اسلام آباد میں وائس آف امریکہ کے نمائندے علی فرقان کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ "وہ (عمران خان) کرے فون وزیر اعظم کو کہ میری کل اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی ہے تو اس کے بعد میں آپ کے پاس آ رہا ہوں۔"

'عمران خان سیاست دانوں کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں'

رانا ثناء اللہ کہتے ہیں کہ عمران خان آج بھی سیاست دانوں کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کے بقول عمران خان مذاکراتی کمیٹیاں تو بناتے ہیں لیکن سیاست دانوں کے ساتھ خود کیوں نہیں بیٹھ سکتے۔

انہوں نے کہا کہ اگر عمران خان بات چیت کے لیے سنجیدگی ظاہر کریں گے تو ان کی قیادت مثبت جواب دے گی۔

رانا ثناء اللہ نے کہا کہ 2014 میں عمران خان نے 126 دن کے دھرنے میں روزانہ اس وقت کے وزیر اعظم کو ہدف تنقید بنایا ۔ لیکن جب سانحہ آرمی پبلک اسکول ہوا تو نواز شریف نے خود عمران خان کو فون کیا اور کہا کہ آئیں ہم دہشت گردی کے خلاف لائحہ عمل بنانا چاہتے ہیں۔

اُن کے بقول " شہدا کے خاندانوں میں اس قدر ردِعمل پایا جاتا ہے کہ اندیشہ ہے کہ اگر ہم کسی بھی شکل میں عمران خان کے ساتھ مذاکرات میں بیٹھ گئے تو ہمیں بھی ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔"


'اگر عمران خان نو مئی کے منصوبہ ساز ہیں تو فوجی عدالت میں مقدمہ کیوں نہ چلے'

وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ نو مئی کے پرتشدد واقعات منصوبہ سازی کے تحت کیے گئے اور اگر عمران خان فوجی تنصیبات پر حملوں کے منصوبہ ساز ہیں تو ان کے خلاف مقدمہ فوجی عدالت میں چلے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ ایسے شواہد موجود ہیں کہ اس حوالے سے عمران خان نے پارٹی رہنماؤں کو باقاعدہ ذمے داریاں سونپ رکھیں تھیں۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ آرمی ایکٹ 1952 اسی مقصد کے لیے ہے اور جو لوگ فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث پائے جائیں گے ان کے خلاف مقدمات بھی فوجی عدالتوں میں چلائے جائیں گے۔

'یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ لوگوں کے گھروں میں گھس کر جلاؤ گھیراؤ کریں گے'

اس سوال پر کہ اگر نو مئی کے واقعات منصوبہ بندی کے تحت تھے تو ریاست نے ان کو روکنے کا بندوبست کیوں نہیں کیا؟ وزیرِ داخلہ نے کہا کہ انٹیلی جینس معلومات تھیں کہ کینٹ کے علاقوں میں احتجاج ہو گا، لیکن یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ گھروں میں گھس کر جلاؤ گھیراؤ کریں گے۔

پی ٹی آئی کی جانب سے ان کی خواتین کارکنان کے ساتھ جیل میں بدسلوکی کے الزامات پر رانا ثناء اللہ نے کہا کہ یہ صرف پروپیگنڈا ہے۔

'نو مئی واقعات سے لاتعلقی کرنے والے مقدمات سے بچ سکتے ہیں'

رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے وہ رہنما جو نو مئی کی منصوبہ بندی اور جلاؤ گھیراؤ میں عملی طور پر ملوث نہیں، ان کے پاس موقع ہے کہ وہ اعلانیہ طور پر لاتعلقی کرکے مقدمات کا سامنا کرنے سے بچ سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قانون میں یہ بات موجود ہے کہ اگر کوئی جرم تسلیم کرے اور معافی مانگے تو عدالت اسے آدھی سزا دیتی ہے۔

تاہم وہ کہتے ہیں کہ جو رہنما جلاؤ گھیراؤ میں ملوث ہیں انہیں کسی صورت معافی نہیں ملے گی اور مقدمات کا سامنا کرنا ہوگا۔


پی ٹی آئی سے علیحدہ ہونے والے رہنماؤں کی مسلم لیگ (ن)میں شمولیت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت میں بہت کم گنجائش ہے کہ وہ پی ٹی آئی رہنماؤں کو شامل کرسکیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ان کی جماعت پی ٹی آئی کے ووٹ بینک کی امیدوار نہیں کیوں کہ ان کا اپنا ووٹ بینک ہے۔

'اکتوبر میں ایک ساتھ قومی و صوبائی انتخابات ہوں گے'

رانا ثناء اللہ کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) انتخابات سے کبھی پیچھے نہیں ہٹی اور اگست میں اسمبلیوں کی مدت مکمل ہونے کے بعد نگران حکومت 90 روز میں ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کروائے گی۔

انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت اور اتحادی حکومت کا مؤقف رہا ہے کہ وفاق اور صوبوں میں الیکشن ایک ساتھ ہونے چاہئیں کیوں کہ یہ آئینی ضرورت ہے۔

'ملک ریاض نے دباؤ میں عمران خان کو رشوت دی'

القادر ٹرسٹ میں عمران خان کے خلاف مقدمہ تو چلایا جا رہا ہے لیکن ملک ریاض کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی کے جواب میں رانا ثناء اللہ نے کہا کہ اس معاملے میں ملک ریاض کے کردار کا جائزہ نیب نے لینا ہے۔

تاہم وہ کہتے ہیں کہ ان کی نظر میں ملک ریاض کو اس اقدام کے لیے مجبور کیا گیا اور انہوں نے 10 ارب روپے کی رشوت دے کر اپنے پھنسے ہوئے 60 ارب روپے نکلوا لیے۔

انہوں نے کہا کہ اصل ذمے دار تو وہ ہیں جن کے پاس یہ اختیار تھا اور انہوں نے اپنے اختیار کا غلط استعمال کرتے ہوئے ملک ریاض کو فائدہ پہنچایا اور اس سے اربوں روپے کی زمین رشوت کی مد میں حاصل کی۔

خیال رہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان اس نوعیت کے الزامات کی تردید کر چکے ہیں۔

عمران خان نے ابتداً نو مئی کے واقعات کی مذمت نہیں کی تھی، تاہم بعدازاں اپنے متعدد بیانات میں اُنہوں نے نو مئی کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے اس معاملے پر چیف جسٹس آف پاکستان کی نگرانی میں تحقیقاتی کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔

سابق وزیرِ اعظم کا موؐقف رہا ہے کہ وہ 27 برس سے سیاست میں ہیں اور اُنہوں نے کبھی تشدد کی سیاست کو فروغ نہیں دیا۔

عمران خان القادر ٹرسٹ میں رشوت کے الزامات کی بھی سختی سے تردید کر تے رہے ہیں، اُن کا مؤقف رہا ہے کہ القادر ٹرسٹ اس لیے بنایا گیا تاکہ ملک میں نئی لیڈر شپ سامنے آ سکے۔

سابق وزیرِ اعظم نو مئی کے واقعات کے بعد بات چیت کی دعوت بھی دے چکے ہیں۔ ایک بیان میں اُنہوں نے کہا تھا کہ وہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں اور اس کے لیے انہوں نے ایک کمیٹی کے قیام کا اعلان بھی کیا ہے۔