گزرے بیس برسوں میں جیک گرینڈ کولس کبھی وہ صبح بھلا نہیں سکے۔ گھڑی میں سات بج کر تین منٹ کا وقت ہو رہا تھا۔ جیک نے بیدار ہو کر گھڑی دیکھی جس کے بعد ان کی نگاہ کھڑکی سے نظر آتے آسمان پر رک گئیں۔ جیک اس بات سے بے خبر تھے آج ان کی زندگی ہمیشہ کے لیے تبدیل ہونے والی ہے۔
دوسری جانب ٹھیک اسی وقت جب پینسلوینیا میں 10 بج کر تین منٹ کا وقت ہو چکا تھا، یونائیٹڈ فلائٹ 93 زمین پر گر کر تباہ ہو چکی تھی۔
جیک کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ان کی شریکِ حیات لورین اس پرواز میں سوار ہوں گی۔ اس لیے جب جین نے ٹی وی آن کیا اور اسکرین پر 11 ستمبر 2001 کو ہونے والے حملوں کے ہولناک مناظر دیکھے تو ایک لمحے کو بھی ان کا دھیان اپنی اہلیہ کی جانب نہیں گیا۔
جیک نے رات کو سوتے وقت اپنے ٹیلی فون کی گھنٹی بند کردی تھی اس لیے لورین سے ان کی براہ راست بات تو نہیں ہوسکی۔ لیکن لورین نے اس صبح جیک کے نام دو پیغامات چھوڑے تھے۔
پہلے پیغام میں یہ خبر دی گئی تھی کہ وہ نیو جرسی سے پہلی پرواز کے ذریعے سان فرانسسکو اپنے گھر واپس آ رہی ہیں۔
دوسری کال جہاز سے کی گئی تھی۔ اس پیغام میں لورین کی آواز میں تشویش صاف محسوس کی جا سکتی تھی۔
انہوں نے کہا تھا کہ ایک چھوٹا سا مسئلہ ہے لیکن اب وہ مطمئن ہو گئی ہیں۔ لیکن اس پیغام میں لورین نے یہ نہیں کہا تھا کہ وہ دوبارہ کال کریں گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
آخری پیغام
جیک بتاتے ہیں کہ لورین کا آخری پیغام یہ تھا کہ میں تمہیں دنیا کی ہر شے سے بڑھ کر پیار کرتی ہوں، بس یہ جان لو۔ مہربانی کر کے میری فیملی کو بھی بتانا کہ میں انہیں بھی پیار کرتی ہوں۔ گڈ بائے ہنی۔‘
یہ پیغام سننے کے بعد جیک کی نظر ٹیلی وژن اسکرین پر پڑی جہاں پینسلوینیا میں ایک میدان میں ایک بڑا سا گڑھا دکھایا جا رہا تھا۔ اس کے ساتھ ہی یہ خبر دی گئی تھی کہ یہاں یونائیٹڈ فلائٹ 93 گر کر تباہ ہو گئی ہے۔
جیک کہتے ہیں کہ یہ سنتے ہی ان کے اوسان خطا ہو گئے اور شدید صدمے سے وہ فرش پر گر پڑے۔
اس پرواز پر سوار 44 افراد ہلاک ہو گئے۔ لورین کی عمر اس وقت 38 برس تھی اور تین ماہ قبل ہی وہ امید سے ہوئی تھیں۔ یہ ان کا پہلا بچہ تھا۔ لورین اپنی دادی کی آخری رسومات میں شریک ہونے کے لیے کیلی فورنیا میں اپنے گھر سے نیو جرسی گئی تھیں۔
اپنے اہل خانہ کو پہلی مرتبہ امید سے ہونے کی خوش خبری سنانے کے لیے وہ مزید کچھ دن وہاں رک گئی تھیں۔
جیک بتاتے ہیں کہ دادی کی موت کے بعد لورین کے والدین اور بہنیں اداس تھے اور وہ یہ خوشی کی خبر سنا کر اپنے گھر والوں کے لیے اس صدمے کا اثر کم کرنا چاہتی تھیں۔
مسافروں کی مزاحمت
فلائٹ 93 چوتھا اور آخری طیارہ تھا جسے 11 ستمبر کو القاعدہ کے چار دہشت گردوں نے اغوا کیا تھا اور وہ اسے واشنگٹن ڈی سی میں کیپٹل ہل لے جانا چاہتے تھے۔
اس پرواز میں سوار مسافروں نے جہاز کی نشستوں کے پشت پر لگے فونز کی مدد سے اپنے اہل خانہ اور حکام سے رابطہ کیا تھا۔ جس سے انہیں نیویارک سٹی میں ورلڈ ٹریڈ سیںٹر اور واشنگٹن ڈی سی میں پینٹاگان کی عمارتوں سے طیارے ٹکرانے کا علم ہو گیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
یہ معلوم ہونے کے بعد مسافروں کو یقین ہوگیا تھا کہ ان کے طیارے کا انجام بھی یہی ہو گا۔ اس کے بعد مسافروں نے اغوا کاروں سے مقابلے کے لیے ایک دوسرے کی رائے لی اور طیارے کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش بھی کی۔ یہ ایک جرات مندانہ فیصلہ تھا جس کی وجہ سے لاتعداد انسانی جانیں بچ گئیں۔
جیک کا کہنا ہے کہ فلائٹ 93 کے مسافروں نے حیرت انگیز فیصلہ کیا تھا۔ یہ بے غرضی کے ساتھ محبت میں کیا گیا فیصلہ تھا جو نفرت کو شکست دینے کے لیے کیا گیا۔
طیارے میں ہونے والے واقعات کا یہ خاکہ بعد میں پرواز سے کی گئی فون کالز اور کاک پٹ کے وائس ریکارڈر سے حاصل ہونے والی معلومات سے تیار کیا گیا ہے۔
اس ریکارڈ کے مطابق طیارہ اغوا ہونے کے 30 منٹ کے دوران ہی اس پر سوار مسافروں نے مزاحمت کا فیصلہ کیا تھا۔ آڈیو ریکارڈنگ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسافر چیخ پکار کررہے تھے، کچھ کرو کچھ کرو کی صدائیں بلند ہورہی تھیں اور اس کے ساتھ ہی جہاز میں شیشے ٹوٹنے کی آوازیں بھی آنا شروع ہو گئیں۔
اغوا کاروں نے جہاز کو آٹو پائلٹ پر ڈال کر اس کا رُخ واشنگٹن ڈی سی کی جانب کر دیا تھا۔ مسافروں کی چیخ پکار ار مزاحمت کے بعد طیارہ ہوا میں ڈولنے لگا۔ مغربی پینسلوینیا سے گزرتے ہوئے آخری لمحات میں طیارے کا رُخ نیچے کی جانب تھا۔
جہاز کا کنٹرول دہشت گردوں کے پاس رہا لیکن مسافروں کی مزاحمت اور ہنگامہ خیزی کی وجہ سے دہشت گردوں نے طیارے کا کنٹرول مسافروں اور عملے کے پاس جانے کے خوف سے پہلے ہی اسے زمین پر گرا دیا تھا۔
فلائٹ 93 صبح 10 بج کر تین منٹ پر 563 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین سے ٹکرائی۔ اس میں سات ہزار گیلن ایندھن موجود تھا جس کی وجہ سے طیارہ زمین پر گرتے ہی آگ کے بگولے میں تبدیل ہو گیا تھا۔
’ایسا ضرور ہوا ہو گا‘
فلائٹ 93 کے مسافروں نے جو مزاحمت کی پرواز کے ریکارڈ سے اس کا ایک خاکہ تو سامنے آ گیا۔ لیکن پرواز کے مسافروں کے اہل خانہ اس بات سے آگاہ نہیں کہ ان کے پیاروں نے اغوا کاروں سے مقابلے میں کیا کردار ادا کیا تھا۔
جیک کو یقین ہے کہ ان کی اہلیہ لورین اغوا کاروں سے مزاحمت میں پیش پیش رہی ہوں گی۔ لورین ایڈورٹائزنگ سیلز کی کنسلٹنٹ تھی۔ جیک کہتے ہیں کہ لورین کا دل بہت بڑا تھا اور اس کی رگ رگ میں جینے کی امنگ تھی۔
وہ کسی مصیبت میں لوگوں کی مدد کے لیے ہر وقت تیار رہتی تھیں اور اسی لیے لورین نے ہنگامی طبی امداد کی باقاعدہ تربیت حاصل کی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ لورین کر گزرنے والی تھی وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھی ہو گی۔ جیک تصور کرتے ہیں کہ لورین نے کیا کیا ہو گا۔ وہ صورتِ حال کا جائزہ لے رہی ہو گی، اسے شدت سے اس بات کا احساس ہوا ہو گا کہ وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے اور وہ بار بار اپنی گھڑی بھی دیکھ رہی ہو گی۔
’زندگی اس زخم کے ساتھ گزارنی ہے‘
جیک 2003 تک صرف دو مرتبہ نائن الیون کی برسی کے موقعے پر طیارہ تباہ ہونے کے مقام پر پینسلوینیا گئے لیکن بعد میں وہاں جانے سے ہونے والے شدید دلی کرب کے احساس کے باعث انہوں نے وہاں جانا چھوڑ دیا۔
اس کے بعد سے وہ لورین کی یاد منانے کے لیے 11 ستمبر کا دن لورین کے پسندیدہ مشاغل میں سے کوئی ایک کرتے ہوئے گزارتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ لورین کو بائیک کی سواری کرنا یا خاموشی کے ساتھ دیر تک ساحل پر چلتے رہنا بہت پسند تھا۔
لیکن اس بار نائن الیون کی بیسویں برسی ہے۔ اس واقعے کو دو دہائیاں مکمل ہو رہی ہیں اور جیک لورین کی یاد منانے کے لیے پینسلوینیا میں فلائٹ 93 نیشنل میموریل جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
جیک کا کہنا ہے کہ ہر سال اس دن کی یاد دل گرفتہ کر دیتی ہے۔ یہ زخم پوری زندگی ہمارے ساتھ رہے گا۔
اس سانحے کے بعد جیک گرینڈ کولس ڈپریشن اور شدید قلق کا شکار رہے۔ تھیراپی کے بعد ہی وہ لورین کا طیارے سے بھیجا گیا پیغام دیکھنے کے قابل ہوئے۔
جیک بتاتے ہیں کہ جب بھی مشکل ہوتی ہے تو کس طرح لورین کی آواز انہیں سنائی دینے لگتی ہے۔ یہ آواز ان سے اٹھ کھڑے ہونے اور زندگی جینے کا کہتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
'یہ اختلاف بھلانے کا وقت ہے'
جیک نے دوبارہ شادی کی اور وہ گھر چھوڑ دیا جو کیلی فورنیا میں انہوں نے لورین کے ساتھ مل کر بنایا تھا۔ وہ اب تقریباً ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی وہ نائن الیون کے بعد پیش آنے والے اپنے کرب ناک تجربات پر ایک کتاب بھی لکھ رہے ہیں۔ جیک یہ کتاب اپنے اس بچے کی یاد میں لکھ رہے ہیں جو دنیا میں نہیں آ سکا۔ اس کی پیدائش اگر ہو جاتی تو آج وہ 20 برس کا ہوتا۔
نائن الیون کے سانحات کی بیسویں برسی پر جیک اس وقت کو یاد کرتے ہیں جب پورا ملک ایک ساتھ تھا اور پھر ان کا دھیان آج امریکہ میں بڑھتی تفریق پر چلا جاتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس وقت ایک کنارے سے دوسرے تک پورا ملک متحد تھا۔ میرے خیال میں یہ اختلافات کو بھلانے کا وقت ہے۔