پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغانستان کے تمام نسلی برادریوں پر مشتمل ایک جامع حکومت کے لیے طالبان سے بات چیت شروع کر دی ہے۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کے مطابق دوشنبے میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کے موقع پر افغانستان کے ہمسایہ ممالک کی قیادت بشمول تاجکستان کے صدر امام علی رحمٰن سے بات چیت کے بعد افغانستان میں ایک جامع حکومت کے قیام کے لیے بات چیت شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جس میں افغانستان کی تاجک، ہزارہ اور ازبک برادری کی بھی نمائندگی ہو۔
وزیرِ اعظم عمران نے ہفتے کو سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ گزشتہ 40 برس کے تنازع کے بعد یہ جامع حکومت ایک پر امن اور مستحکم افغانستان کی ضامن ہو گی جو نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کے مفاد میں ہو گا۔
وزیرِ اعظم پاکستان کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ، یورپی ممالک سمیت بین الاقوامی برادری طالبان پر زور دے رہے ہیں کہ طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان میں ایسی حکومت تسلیم کریں گے جو جامع ہو۔ جس میں خواتین اور اقلیتی برادریوں کے حقوق کی ضمانت دی جائے۔
گزشتہ ماہ 15 اگست کو کابل کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد طالبان نے ایک عبوری کابینہ کا اعلان کیا ہے البتہ یہ کابینہ زیادہ تر طالبان رہنماؤں پر مشتمل ہے اور جس میں افغانستان کی دیگر برادریوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔
افغان امور کے ماہر اور صحافی طاہر خان کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے یہ وضاحت نہیں کی کہ ان کی طالبان قیادت میں کس سے بات چیت ہوئی ہے اور کن امور پر گفتگو کی گئی ہے ۔
طاہر خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کے بیان کے بعد طالبان کا بیان اہم ہو گا اگر ایسا کوئی بیان آتا ہے تو پھر تصدیق ہوگی کہ کوئی پیش رفت ہوئی یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے ہوں کہ پاکستان کے حکام اور طالبان کے درمیان صرف جامع حکومت کے معاملے پر کوئی رابطہ ہوا ہو۔
انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ طالبان دیگر ممالک کی توقع کے مطابق کسی بھی ایسے رہنما کو حکومت میں شامل نہیں کریں گے جو گزشتہ 20 برس کے دوران ماضی میں کسی حکومت میں شامل رہے ہوں۔
طاہر خان کا کہنا تھا کہ کہ طالبان پر بین الاقوامی برادری کا جامع حکومت بنانے کے لیے دباؤ ہے شاید طالبان یہ دباؤ قبول نہ کریں۔
دوسری جانب افغان صحافی اور تجزیہ کار سمیع یوسف زئی کا کہنا ہے کہ طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان میں جامع حکومت کے قیام امکانات ختم ہو گئے ہیں۔
کابل کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد طالبان کا یہ مؤقف تھا کہ وہ افغانستان میں ایک جامع حکومت بنائیں گے۔ البتہ مبصرین کے مطابق طالبان نے جامع حکومت سے متعلق دعوؤں کی پاسداری نہیں کی۔
سمیع یوسف زئی کہتے ہیں کہ طالبان نے اپنی عبوری حکومت میں ازبک اور تاجک طالبان رہنماؤں کو بھی کوئی خاص نمائندگی نہیں دی۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان کا مؤقف ہے کہ حکومت کی تشکیل ان کا اندرونی معاملہ ہے کہ وہ کس کو حکومت میں شامل کریں کس کو نہ کریں۔
سمیع یوسف زئی کے مطابق طالبان نے کابل کا کنٹرول کسی سیاسی تصفیے کے نتیجے میں حاصل نہیں کیا۔ اگر تمام افغان دھڑوں کے درمیان کوئی سیاسی تصفیہ طے پا جاتا تو شاید ایک جامع اور نمائندہ حکومت تشکیل پا سکتی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ تاجکستان ایران اور بعض دیگر پڑوسی ممالک کے لیے افغانستان میں جامع حکومت کا معاملہ ایک مسئلہ ہو سکتا ہے۔ البتہ بین الاقوامی برادری کے لیے حکومت کی ہیئت سے زیادہ طالبان کی خارجہ پالیسی کے خدوخال زیادہ اہم ہوں گے۔
دوسری جانب بین الاقوامی امور کی تجزیہ کار ہما بقائی کہتی ہیں کہ طالبان خود بھی کہہ چکے ہیں کہ یہ ایک عبوری حکومت ہے۔ بین الاقوامی برادری کو بھی طالبان کو وقت دینا ہو گا تاکہ وہ اندرونی اور بیرونی حلقوں کی خواہشات میں توازن رکھتے ہوئے آگے بڑھ سکیں۔
ہما بقائی نے مزید کہا کہ پاکستان بین الاقوامی برادری اور طالبان کے درمیان رابطے کے لیے فعال کردار ادا کرسکتا ہے۔ پاکستان اور چین اس وقت دو ایسے ممالک ہے جن کا طالبان پر اثر و سوخ موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان طالبان کو باور کرا سکتا ہے کہ بین الاقوامی برادری کو ساتھ لے کر چلنے لیے طالبان کو بھی جامع حکومت اور خواتین کے حقوق کے بارے میں لچک کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
انہوں نے واضح کیا کہ دنیا کو یہ توقع بھی نہیں کرنی چاہیے کہ پاکستان طالبان کو ہر بات ماننے پر تیار کر سکتا ہے۔