پارلیمنٹ کے ان کیمرہ اجلاس میں شریک بعض اراکین نے اس پر براہ راست تبصرہ کرنے سے گریز کیا تاہم بعض اراکین نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ آرمی چیف نے کہا ہے کہ قبائلی اضلاع اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں کوئی نیا فوجی آپریشن شروع نہیں کیا جارہا بلکہ پہلے سے جاری انٹیلی جنس کی بنیاد پر ٹارگٹڈ آپریشن کو تیز کیا جائے گا۔
اس سے قبل سات اپریل کو وزیراعظم شہبازشریف کی صدارت میں قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں عسکریت پسندوں کی بڑھتی ہوئی پرتشدد کاروائیوں کے پیش نظر پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا ،بالخصوص افغانستان سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں موجود مبینہ عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کاروائیوں کا فیصلہ کیا گیا تھا۔جس پر علاقے کی آبادی اورسیاسی اور مذہبی پارٹیوں کے درمیان تحفظات کا اظہار کیا گیا۔
اس فیصلے سے پہلے پاکستان میں انتہا پسندوں کی جانب سے پرتشدد واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جس میں فوج اور پولیس کے اہل کاروں کو ٹارگٹ کرنے کی کاروائیاں شامل ہیں۔
جنوبی وزیرستان کے مرکزی انتظامی مرکز وانا سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر پاکستانی فوج کے جاسوسی ادارے آئی ایس آئی کے ایک اعلی عہدیدار مارچ کے آخر میں مبینہ عسکریت پسند حملے میں ہلاک ہوگئے تھے ۔ اس حملے میں ان کے ڈرائیور سمیت تین سیکیورٹی اہل کار زخمی بھی ہوئے تھے ۔ اس واقع کی کسی بھی فرد یا گروپ نے ذمہ داری قبول نہیں کی تھی ۔
چند روز قبل اسی علاقے میں سیکیورٹی فورسز نے ایک کاروائی میں آٹھ مبینہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعوٰی کیا تھا ۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ چند ماہ پہلے اس علاقے کو انتہا پسند عناصر سے پاک کرنے کے لیے جرگوں اور دیگر پلیٹ فارمز پربڑے پیمانے پر حمایت کا اظہار کیا گیا تھا،اور اس کےحق میں ریلیاں بھی نکالی گئی تھیں۔ اس تبدیلی کی وجہ جاننے کے لئے وائس آف امریک نے مختلف مکتب فکر کے لوگوں سے بات کی ہے۔
اس علاقے میں فوجی آپریشنز کی حالیہ تاریخ
افغانستان سے ملحق پاکستان کے سرحدی قبائلی علاقوں میں 9/11 اور افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کاروائیوں کی داستان بہت طویل ہے ۔
اب تک40 سے زیادہ کاروائیاں یا آپریشنز کئے گئے ہیں جن کےکچھ فوری مثبت نتائج تو سامنے آئےہیں، لیکن کسی دیر پا نتیجے میں عسکریت پسند ختم بلکہ کم بھی نہیں ہو سکی۔
تاہم ہر فوجی کاروائی کے دوران یا خاتمے پر سول، فوجی اور سیاسی عہدیدار دہشت گردوں کے خاتمے اور علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے دعویٰ کرتے رہےہیں۔
سب سے پہلی فوجی کاروائی 2003 کے اواخر اور 2004 کے اوائل میں جنوبی وزیرستان میں کمانڈر نیک محمد کے خلاف ہوئی۔ سال 2005 میں باجوڑ اور مہمند کے علاقوں میں مولوی فقیر محمد،عبدالولی مہمند اور دیگر کے خلاف اقدامات کیے گئے ۔
2009 میں راہ راست کے نام سےسوات کے ملا فضل اللہ کے خلاف کاروائی کو بیشتر آبادی اور مبصرین سراہتے ہیں۔
سال 2009 میں راہ نجات کے تحت جنوبی وزیرستان میں 2008 سے لیکر 2014 تک پشاور سے ملحقہ قبائلی ضلع خیبر میں لگ بھگ نصف درجن آپریشنز ہوئے جس میں خیبر ون سے تھری کے علاوہ درغلم اور بیا درغلم اور جون 2014 میں شمالی وزیرستان کا ضرب غضب سر فہرست ہیں۔
ترقی پسند اور قوم پرست سیاسی جماعتوں کے تحفظات
عسکریت پسندوں کے خلاف مجوزہ فوجی کاروائیوں کی کئی ترقی پسند اور قوم پرست سیاسی جماعتوں کا کہناہے کہ حکومت کونہ صرف عسکریت پسندی کے خلاف اپنی حکمت عملی واضح کرنی چاہئے بلکہ افغانستان کے بارے میں پالیسیوں پر اس لیے نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے کہ وہاں پاکستان جن طالبان کی حمایت کر رہا ہے وہ ان پاکستانی طالبان کا ساتھ دے رہے ہیں جو پاکستان میں دہشت گردی اور پر تشدد کاروائیوں میں ملوث ہیں ۔
اس نوعیت کی فوجی کاروائیوں کو شروع کرنے سے قبل ان افراد اور سابق سیکیورٹی عہدیداروں کے خلاف کاروائی کے مطالبے بھی کیے جا رہے ہیں جنہوں نے اگست 2021 کو کابل میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد پاکستانی طالبان سے مذاکرات شروع کرکے ان کو وطن واپس آنے دیا تھااور ان کے سزا یافتہ ساتھیوں کو جیلوں سے رہا کر دیا تھا ۔
افغانستان میں طالبان، اس نوعیت کی کاروائیوں میں پاکستانی طالبان کی حمایت یا پشت پناہی کی تردید کرتے ہیں۔
خیبر پختونخوا کی موثر عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا ہے کہ " آپریشن آخری آپشن ہوتا ہے۔آخری آپشن سے پہلے دہشتگردوں کے حمایت کرنے والوں اور انہیں واپس لانے والوں کے خلاف کیا کاروائی ہوئی ہے ؟
پشتونوں کو جنگی اقتصاد کا ایندھن بنانے کی اجازت ہرگز نہیں دینگے جب تک دہشت گردوں کو واپس لانے والوں کو سزا نہیں دی جاتی، کسی آپریشن کی اجازت نہیں دینگے۔
حال ہی میں قائم نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ اور شمالی وزیرستان سے ممبر قومی اسمبلی محسن داوڑ نے قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں قومی سلامتی کمیٹی کے عسکریت پسندوں کے خلاف کاروائی کی فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور سیکیورٹی ادارے عوامی اعتماد کھو چکے ہیں اور کسی کو بھی ان کاروائیوں پر یقین نہیں۔ا نہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے مرتب کیے گئے قومی لائحہ عمل میں عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کی کوئی گنجائش نہیں ہے مگر اس کے باوجود سابق حکومت نے مذاکرات کیے۔
نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ نے ایک بیان میں بھی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے فیصلوں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے 2007 سے 2014 تک ہونے والے آپریشنز کے نتائج کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں۔
پاکستان مزدور کسان پارٹی کے سربراہ افضل خاموش نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کی جماعت فوجی آپریشنز کی بھر پور مخالفت کرتی ہے ۔بقول ان کے ہم امریکی سامراج کی استعماری جنگ کے مزیدمتحمل نہیں ہوسکتے ۔ 2002 سے 2022 تک متعدد آپریشنز ہونے کے باوجود ہشت گردوں کا دوبارہ منظر عام پر آنا سوالیہ نشان ھے۔
انہوں نےکہا تمام محرکات کو سامنے لایا جائے ۔کیا مذاکرات اور جرگوں کے باوجود دہشت گردی کے واقعات رونما ہونا مذاکراتی کمیٹی کے لیےسوالیہ نشان نہیں؟افضل خاموش نے پختون قیادت کو مل بیٹھ کر مجوزہ نئی فوجی کاروائی سے نمٹنے کیلئے متفقہ لائحہ عمل اپنانے پر زور دیا ہے۔
فوجی آپریشن کے سیاسی مقاصد بھی ہو سکتے ہیں: تجزیہ کار
کچھ تجزیہ کاروں کا موقف ہے کہ ماضی کے طرح بڑے پیمانے پر ہونے والے فوجی کاروائیوں سے عسکریت پسندی کسی بھی طور پر کم نہیں ہو سکی ہے بلکہ اس میں اضافہ ہوا ہے ، لہذا اس کی بجائے مخبروں اور انٹیلی جنس بنیادوں پر کاروائیاں نتیجہ خیز ثابت ہوسکتی ہیں ۔
کچھ تجزیہ کاروں اور صحافیوں کا کہنا ہے کہ دہشت گردی میں جب بھی اضافہ ہوا ہے اس سے سیکیورٹی اداروں اور حکومتوں نے فائدہ د اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ بقول ان کے اب بھی یہ دکھائی دیتا ھے کہ حکومت دہشت گردی میں اضافے کو بنیاد بنا کر پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات کو التواء میں رکھنے کے لیے سیاسی فوائد حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔
سیکیورٹی کےامور کےتجزیہ کارعامر رانا کہتے ہیں کہ سیکیورٹی کی صورت حال کا بہانہ بنا کر ملک میں انتخابات ملتوی کرانا درست نہیں۔ سیکیورٹی معاملے کو سیاست سے الگ رکھنے کی ضرورت ہے۔اور ماضی کے آپریشن ردالفساد کا آڈٹ کرنا چاہیے۔
وہ کہتے ہیں ماضی میں تو آپریشنز عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں اور آماجگاہوں کے خاتمےکے لیے کیے گئے تھے اب تو ٹھکانے نہیں رہے ۔ ماضی میں آپریشن رد الفساد تو بہت کامیاب رہا تھا مگر بعد میں حالات خراب ہو گئے ۔
انہوں نے بھی مخبروں اور انٹلی جنس کے بنیاد پر عسکریت پسندوں کے خلاف کاروائیوں کی حمایت کی اور کہا کہ بڑے پیمانے پر علاقوں کو خالی کرنے اور لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کرنے سے مسئلے حل ہونے کی بجائے گھمبیر ہو جاتے ہیں ۔
عامر رانا نےکالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنے اور سزا یافتہ طالبان کو رہا کرنے والوں کے خلاف کاروائی کی حمایت کی مگرتوجہ دلائی کہ ملک کے تاریخ میں کبھی بھی فوجی عہدیداروں کا محاسبہ نہیں کیا گیا ہے ۔
پشاور یونیورسٹی کے سینئر پروفیسر ڈاکٹر جمیل چترالی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ماضی کی طرح فوجی کاروائی کسی بھی طور پر مسئلے کا حل نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مخبروں اورانٹیلی جنس کی بنیاد پر ہونے والی کاروائیاں اب بہت نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہیں۔فوجی کاروائیوں کے لیے لوگوں کےبے گھر ہو نے سے بہت زیادہ مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔
سیاسی رہنماؤں اور عہدیداروں کے علاوہ شمالی اور جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے قبائلی سیاسی رہنماؤں نے مجوزہ فوجی کاروائی کی مخالفت کرنے کے ساتھ ساتھ واضح طور پر نقل مکانی کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے ۔
وانا جنوبی وزیرستان میں گرینڈجرگہ
افغانستان سے ملحقہ جنوبی وزیرستان کے احمدزئی وزیر قبائل کی ذیلی شاخ گنگی خیل کے نو اقوام پر مشتمل احمدزئی وزیر قبائل نے کاریزکوٹ میں فوجی اپریشن کے خلاف گرینڈ جرگہ منعقد کیا جس میں آل سیاسی پارٹیز ، علماء کرام، قبائلی مشران سمیت مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے کثیر تعداد میں شرکت کی ۔
سینئر صحافی اور وانا پریس کلب کے سابق صدر شہزاد دین وزیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جرگے نے متفقہ طور پر فوجی کاروائی کی مخالفت کرتے ہوئے حکومت سے وانا اور گرد و نواح میں موجود طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف کاروائی کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے ۔
جرگے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا میرزا جان نے کہاکہ گزشتہ روز آئی جی ایف سی ساؤتھ اور بریگیڈئیرکے ساتھ ملاقاتوں میں عسکری قیادت سے مطالبہ کیا گیا کہ رمضان کے بابرکت مہینے کی خاطر فوجی اپریشن کی باتیں عیدالفطر کے بعد کریں۔
جرگے میں آل سیاسی پارٹی کے رہنماۂں تاج محمد وزیراورملک سراج نے جنہوں نے یہ ملاقاتیں کی تھیں اس کا اعادہ کیا۔
جرگے نے اس پیش رفت کو خوش آئند قرار دے کر عید الفطر کے بعد حکومتی عہدیداروں سے ملنے اور مذاکرات کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے ۔
جنوبی وزیر ستان میں ردعمل
عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر رہنما ، نورزمان وزیر نے وائس اف امریکہ کو بتایا کہ کچھ روز سے سوشل میڈیا پر آپریشن اور علاقے کاریز کوٹ گنگی خیل کو خالی کرنے کے بارے میں سیکیورٹی حکام کے احمدزئی وزیر قومی مشران کو دی گئی نوٹسوں کی باز گشت ہے جس کے نتیجے میں لوگوں میں کافی تشویش ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوئی بھی علاقے کو خالی کرنے کے حق میں نہیں ہے، اور نہ مقامی قبائل کسی کو ایسا کرنے کی اجازت دینگے ۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور سیکیورٹی اداروں نے ہمارے علاقے میں"اچھے برے طالبان" تشکیل دیے ہیں ،اور اس سے علاقے میں انتشار پھیلا ہے۔
ہم واضح پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اگر سیکیورٹی فورسز کےادارے شر پسند عناصر کے خلاف سرجیکل سٹرائیک آپریشن کرنا ہے تو ضرور کریں، مگر گڈ اور بیڈ طالبان کی پالیسی کو تبدیل کیا جائے۔
اسی طرح اس قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان سے پشتونخوا ملی پختونخوا عوامی پارٹی کے سنئیر رہنما ملک خیال محمد وزیر نے ایک بیان میں قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ڈالرز کی وصولی کیلئے قبائلی علاقوں میں آپریشن کا جوفیصلہ کیا ہے وہ انتہائی قابل مذمت ہے اوروہ اسے مسترد کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جنوبی وزیرستان وانا میں گزشتہ20 سالوں سے آپریشن ہورہے ہیں لیکن عوام کے گھروں ، بازاروں کو مسمار کرنے ، کاروبار تباہ کرنے، عام لوگوں کو گرفتار کرنے ، اور قتل عام کرنے کے علاؤہ کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔
جنوبی وزیرستان کے علاوہ ملحقہ شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی قومی سلامتی کمیٹی کے اس فیصلے پر معترض ہیں ۔
عوامی نیشنل پارٹی شمالی وزیرستان کے رہنما تحسین داوڑ نے شمالی و جنوبی وزیرستان میں ممکنہ آپریشن کے حوالے سے اپنے بیان میں کہا ہے کہ نقل مکانی کی صورت میں آپریشن نہیں مانتے ۔ جہاں پر بھی امن خراب کرنے والے مسلح گروپس موجود ہیں، وہاں ٹارگٹڈ آپریشن کیے جائیں کیونکہ ابھی تک تو آپریشن ضرب عضب کے متاثرین کی پوری طرح آباد کاری کو بھی ممکن نہ بنایا جا سکا ہے اور نہ ہی ان کی تلافی کی گئی ہے ۔
اسی اثنا میں پاکستان کے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نےوائس آف امریکہ کی افغان سروس کے ساتھ ایک انٹرویو میں یہ بات تسلیم کی ہے کہ اسلام آباد کے کابل میں حکمران طالبان راہنماؤں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں تاہم وہ تحریک طالبان پاکستان کے پاکستان پر حملوں میں اپنی سرزمین استعمال کرنے سے روکنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے درمیان ایک ’کامریڈی‘ موجود ہے کیونکہ وہ 20 برسوں تک نیٹو کے خلاف مل کر لڑتے رہے ہیں لیکن بظاہر لگتا ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی سے فاصلہ اختیار کر رہے ہیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے راہنماؤں کی پاکستان میں دوبارہ آبادکاری عمران خان اور ان کی حکومت کی حکمت عملی تھی جس کو اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کی بھی حمایت حاصل تھی لیکن یہ کوشش ناکام ہو چکی ہے۔ انہوں نے خیبر پختونخوا میں سابق قبائلی علاقوں اور دیگر شہروں میں عام شہریوں کے ٹی ٹی پی کے خلاف مظاہروں کے حوالے سے اعتراف کیا کہ عوام ٹی ٹی پی کے ساتھ مل کر رہنے سے صاف انکار کر رہے ہیں اور اچھی بات ہے کہ یہ احتجاج مسلح نہیں ہے۔