پاکستان کے نجی نیوز چینلز کی تنظیم ’ایمنڈ‘ نے میڈیا پر بڑھتے ہوئے دباؤ، غیر اعلانیہ سینسرشپ، صحافیوں کی گمشدگی اور حکومت و ریاستی اداروں کی بے جا مداخلت کے باعث پیدا ہونے والی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز اینڈ نیوز ڈائریکٹرز (ایمنڈ) نے یہ بات تنظیم کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ایک ہنگامی اجلاس کے بعد جاری ہونے والے بیان میں کہی ہے جو کہ پاکستانی میڈیا بالخصوص ٹیلی ویژن چینلز کو درپیش حالیہ چیلنجز کا جائزہ لینے کے لیے بلایا گیا تھا۔
تنظیم کے مطابق عوام کو حق معلومات سے محروم رکھنے اور صورتِ حال کی یک طرفہ عکاسی کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے اور ان حالات میں آزادانہ، غیر جانب دارانہ صحافت اور عوام کو اصل حقائق سے آگاہ کرنا مشکل بنا دیا گیا ہے۔
پاکستان میں حالیہ عرصے میں ذرائع ابلاغ اور ٹی وی چینلز کو دباؤ کا سامنا ہے جب کہ انسانی حقوق کے حوالے سے بھی تحفظات بڑھ رہے ہیں۔
عالمی صحافتی تنظیم ’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ کی ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان 12 درجے تنزلی کے ساتھ گزشتہ برس 157ویں نمبر پر چلا گیا تھا۔
ایمنڈ کے سیکریٹری طارق محمود نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صورتِ حال اس حد تک تشویش ناک ہے کہ تنظیم نے فیصلہ کیا ہے کہ خاموشی ترک کی جائے اور حکومت تک تحفظات پہنچائے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ غیر اعلانیہ سینسر شپ کا یہ عالم ہے کہ خبریں دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بعض خبروں کو روک دیا گیا ہے اور بعض خبریں سیاسی انتقام کی عکاسی کرتی ہیں۔
’ہر آنے والے دن کے ساتھ صحافت پر دباؤ بڑھ رہا ہے‘
وہ کہتے ہیں کہ ہر آنے والے دن کے ساتھ صحافت پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ پی ٹی آئی کی گزشتہ حکومت میں بھی پیکا آرڈیننس کا استعمال کرتے ہوئے ایسی ہی پابندیاں لگائی گئی تھیں تاہم موجودہ حکومت میں شامل جماعتوں نے اس وقت اس قانون کو کالا قانون قرار دیا تھا جو کہ آج بھی صحافت کی آواز دبانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
طارق محمود کے مطابق ایک طرف تو حکومت اور ریاستی اداروں کا دباؤ نظر آتا ہے جب کہ دوسری جانب اشتہارات کو ہتھیار بنا کر بھی ایڈیٹوریل آزادی کو ختم کیا جا رہا ہے۔
ایمنڈ کے سیکرٹری نے کہا کہ تنظیم نے موجودہ حالات کے بارے میں وزیرِ اعظم، حکومت و حزبِ اختلاف کے سیاسی قائدین، پیمرا، آئی ایس پی آر، انسانی حقوق اور آزادیٴ صحافت کی تنظیموں کو خط کے ذریعے آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
’فیصلے حکومت نہیں بلکہ طاقت ور حلقے کر رہے ہیں‘
پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن (ایچ آر سی پی) کی سابق سربراہ زہرا یوسف کہتی ہیں کہ صحافت پر غیر اعلانیہ سینسر شپ پر تنظیم کو تشویش ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دورِ حکومت میں غیر اعلانیہ سینسر شپ کے باعث پاکستان کی آزادیٴ صحافت میں عالمی درجہ بندی کئی درجے گر گئی تھی۔ ان کے بقول وہی اقدامات موجودہ حکومت میں بھی دہرائے جا رہے ہیں۔
زہرا یوسف نے کہا کہ 2018 کے بعد سے حکومتوں کے پیچھے فوج کا زور ہے۔ لگتا ہے کہ فیصلے حکومت نہیں بلکہ طاقت ور حلقے کر رہے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ بعض شخصیات کے بارے میں میڈیا پر بات تک نہیں کی جاسکتی۔
ان کے مطابق صحافیوں کو لاپتہ کیا جا رہا ہے۔ ایسا کسی جمہوری معاشرے میں کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟
’فوج کی غیر ضروری تشہیر بھی کی جا رہی ہے‘
زہرا یوسف نے کہا کہ سینسر شپ کے علاوہ فوج کی غیر ضروری تشہیر بھی کی جا رہی ہے جب کہ افواج کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کی غیر معمولی مہم بھی عروج پر ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ حکومت اس وجہ سے بھی خاموش ہے کہ موجودہ صورتِ حال ان کے حق میں جا رہی ہے لیکن انہیں احساس ہونا چاہیے کہ ماضی میں ان پر بھی اسی قسم کی پابندیاں لگیں تھیں جب کہ سابق صدر آصف زرداری، سابق وزیرِ اعظم نواز شریف جیسے رہنماؤں کے انٹرویوز ٹی وی چینل پر چلائے نہیں جاسکتے تھے۔
وزیرِ اطلاعات مریم اورنگزیب سے بھی اس بارے میں مؤقف مانگا گیا لیکن تاحال ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
ریٹنگ ایجنسی پر پابندی
حکومت نے ٹی وی چینلز کی ریٹنگ بتانے والے ادارے ’میڈیا لاجک‘ پر گزشتہ ہفتے ریاست کے خلاف کام کرنے کے الزام میں پابندی لگا دی تھی۔
وزارتِ داخلہ نے پابندی کے اعلامیہ میں بتایا کہ میڈیا لاجک ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث پائی گئی ہے جس کے باعث یہ سیکیورٹی رسک بن گئی ہے۔ا س پابندی پر پاکستانی حکام کی طرف سے مزید وضاحت نہیں کی گئی۔
اس بارے میں ایمنڈ کے سیکرٹری طارق محمود کا مؤقف ہے کہ ریٹنگ ایجنسی بہت اہم ہے تاہم وہ کہتے ہیں کہ میڈیا لاجک پر پابندی کے معاملے کی زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔