پچاس سال قبل مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بننے والے ملک کے شہری اپنا 50 واں یومِ آزادی منا رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کے بہت سے شہری اب بھی اپنے ملک کی تشکیل کے وقت کے چشم دید گواہ ہیں اور ہر سال 26 مارچ کو 1971 میں پیش آنے والے واقعات کی یاد تازہ کرتے ہیں۔
اپنے قیام کے پچاس سال کے عرصے میں بنگلہ دیش نے کئی عروج و زوال دیکھے ہیں۔ تاہم حالیہ ایک دہائی کے دوران ماہرین کے بقول معاشی میدان میں بنگلہ دیش نے کئی کامیابیاں سمیٹی ہیں۔
چھبیس مارچ 1971 کو اس وقت مشرقی پاکستان کے اہم سیاسی رہنما شیخ مجیب الرحمٰن نے بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کیا تھا جس کے بعد فوجی آپریشن شروع ہوا جو نو ماہ تک جاری رہا۔
سن 1971 میں 17 سالہ شفیق الاسلام ڈھاکہ کے ایک کالج میں بزنس کی تعلیم حاصل کر رہے تھے جب بنگلہ دیش کی آزادی کے لیے خونی جنگ شروع ہوئی۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے گفتگو کرتے ہوئے شفیع الاسلام نے کہا کہ اُنہوں نے بھارت میں گوریلا ٹریننگ حاصل کی اور واپس آ کر پاکستانی فوج کے خلاف برسرِپیکار ہو گئے۔
اُن کا کہنا تھا کہ"وہ ایک مکمل تباہی کا عرصہ تھا۔ ہماری سڑکیں اور پل تباہ کر دیے گئے تھے اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات عروج پر تھے۔"
لیکن اُن کے بقول نو ماہ تک جاری رہنے والی اس خون ریزی کے بعد آخر کار ملک کو آزادی مل گئی۔
پچاس سال بعد شفیق الاسلام کے حالات اب مکمل طور پر بدل چکے ہیں، اب وہ ملبوسات کی ایک بڑی فیکٹری کے مالک ہیں جہاں لگ بھگ تین ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔
ان کی فیکٹری میں جینز تیار کی جاتی ہیں جو یورپ اور شمالی امریکہ کے ممالک کو برآمد کی جاتی ہے۔
پچاس سال پہلے کیا ہوا تھا؟
تاریخ پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق بنگلہ دیش کے قیام کی آوازیں اس وقت زور پکڑ گئی تھیں جب 1970 میں پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات میں شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ کو اکثریت ملی تھی۔
بنگلہ دیش کے رہنما پاکستانی فوج پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ مارچ 1971 سے دسمبر 1971 تک جاری رہنے والے فوجی آپریشن کے دوران بڑی تعداد میں بنگلہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ تاہم پاکستان ہلاکتوں کے الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔
پاکستان کا یہ الزام رہا ہے کہ بھارت نے مشرقی پاکستان میں بغاوت کو ہوا دی اور علیحدگی پسندوں کو بھارت میں تربیت دے کر پاکستانی فوج کے خلاف لڑنے کے لیے استعمال کیا تھا۔ تاہم بھارت ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
مارچ 1971 میں شروع ہونے والا فوجی آپریشن دسمبر میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تیسری جنگ کا باعث بنا اور 16 دسمبر کو یہ جنگ ختم ہوئی۔
پچاس سال بعد کا بنگلہ دیش
سولہ کروڑ سے زائد آبادی کے ملک بنگلہ دیش کا شمار اب جنوبی ایشیا کی اُبھرتی ہوئی معیشت میں کیا جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق پچاس سال کے دوران قحط، غربت، بے روزگاری، فوجی مداخلت اور سیاسی تشدد سے نبرد آزما رہنے کے بعد اب بنگلہ دیش نے اپنی برآمدات میں اضافہ کیا ہے جب کہ اس نے اپنی نوجوان آبادی کو ترقی دینے میں قابلِ تعریف پیش رفت بھی کی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش نے لاکھوں افراد کو غربت سے نکالا اور اب اس کی معیشت جنوبی ایشیا کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت شمار ہوتی ہے۔
تیزی سے ترقی کرتی معیشت مگر سیاسی تناؤ
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ تیزی سے ترقی کرتی بنگلہ دیش کی معیشت کے باوجود ملک میں سیاسی تناؤ اور 2018 کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات سے ملک میں جمہوری نظام کمزور بھی ہوا ہے۔
سن 2018 کے عام انتخابات میں شیخ حسینہ واجد کی جماعت نے 300 میں سے 266 نشستیں حاصل کی تھیں۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں نے سیاسی مخالفین پر تشدد اور انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات عائد کیے تھے۔
البتہ، بنگلہ دیش کی حکومت نے ان الزامات کو مسترد کیا تھا۔
الینوائے اسٹیٹ یونیورسٹی سے وابستہ جنوبی ایشیائی اُمور کے ماہر علی ریاض نے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کو بتایا کہ بنگلہ دیش میں انتخابی نظام میں پائی جانے والی خامیاں پریشان کن ہیں۔
اُن کے بقول داخلی سیاست کے مسائل اور حسینہ واجد حکومت کے بعض اقدامات معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔
آزادی حاصل کرنے کے بعد 1972 میں بنگلہ دیش کی مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کا حجم محض چھ اعشاریہ دو ارب ڈالر تھا جو 2019 میں بڑھ کر 305 ارب ڈالر ہو گیا ہے۔
بعض معاشی ماہرین کا اندازہ ہے کہ اگر ترقی کی یہی شرح برقرار رہی تو 2030 میں بنگلہ دیش کی جی ڈی پی 600 ارب ڈالرز سے بڑھ سکتی ہے۔
شیخ حسینہ واجد پہلی مرتبہ 1996 میں وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئی تھیں۔ ان کے ادوار میں بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی میں لگ بھگ تین گنا اضافہ ہوا ہے۔
عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق بنگلہ دیش میں خواندگی کی شرح بھی مسلسل بہتر ہو رہی ہے جب کہ لڑکیوں کی تعلیم کو بھی فروغ مل رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک بھارت اور پاکستان کے مقابلے میں بنگلہ دیش بچوں کی غذائی قلت جیسے مسائل کا بھی بہتر طور پر مقابلہ کر رہا ہے۔
بنگلہ دیش میں اوسط عمر 72 برس ہے جب کہ پاکستان میں یہ 67 برس ہے۔
معاشی ماہر قاضی خلیق الزمان احمد کہتے ہیں کہ بلاشبہ بنگلہ دیش کی ترقی کا ماڈل خطے کے دیگر ممالک کے لیے ایک مثال ہے۔
بنگلہ دیش کو درپیش مسائل
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک جانب ملک کی معیشت ترقی کر رہی ہے۔ لیکن دوسری جانب آب و ہوا کی تبدیلی اور سمندر کی سطح میں مسلسل اضافے سے اس کی آبادی کے بڑے حصے کو بقا کے خطرات درپیش ہیں۔
عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق اکثر سیلاب اور طوفانوں کا سامنا کرنے والے جنوبی ایشیائی ملک کو ان خطرات سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔
حال ہی میں کرونا وبا کی وجہ سے بھی معیشت کو نقصان پہنچا۔ بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے وبا کا پھیلاؤ روکنے کے لیے لگائے لاک ڈاؤن کی وجہ سے کئی صنعتیں بھی بند ہوئیں۔