رسائی کے لنکس

ایف اے ٹی ایف کا اجلاس: کیا پاکستان کے اقدامات سود مند ثابت ہوں گے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت کے تدارک کے لیے قائم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا اجلاس پیرس میں جاری ہے جس میں پاکستان کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے ’گرے لسٹ‘ سے نکالنے کے متعلق فیصلہ کیا جائے گا۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ حالیہ عرصے میں ایف اے ٹی ایف کی بیشتر سفارشات پر عمل درآمد کیا جا چکا ہے جس کا اعتراف عالمی تنظیم نے گزشتہ اجلاس میں کیا تھا۔

ایف اے ٹی ایف کی سفارشات پر عمل کرتے ہوئے پاکستان نے بینکنگ نظام میں متعدد اصلاحات اور قواعد متعارف کرائے ہیں۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے نجی بینکوں کے لیے لازم قرار دیے گئے قواعد سے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی سرمایہ کاری کی روک تھام کے ایف اے ٹی ایف کی شرائط تو پوری ہو رہی ہیں، البتہ عام شہریوں کی زندگی اور کاروباری طبقے کو بھی کسی نہ کسی حد تک اس نے متاثر کیا ہے۔

کسی بھی شخص کو بینک اکاؤنٹ کے حصول کے لیے اپنی شناخت کے ساتھ ساتھ کام اور ذرائع آمدن کی تفصیلات بھی دینا ہوتی ہیں۔

بینک معمول سے ہٹ کر کسی بھی ٹرانزیکشن پر پوچھ گچھ کرتا ہے اور رقم کے ذرائع ثابت نہ ہونے تک ٹرانزیکشن روک لی جاتی ہے۔

پاکستان کے اسٹیٹ بینک کے شعبے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (ایف ایم یو) کی ڈائریکٹر جنرل لبنیٰ فاروق کہتی ہیں کہ بینک قواعد پر جو شکایات یا مشکلات آتی ہیں۔ اسٹیٹ بینک اس کا جائزہ لیتا ہے اور اس کے مطابق نظرِ ثانی بھی کی جاتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ان کی معلومات کے مطابق بینکنگ کے نئے قواعد پر سامنے آنے والی مشکلات پر غور کیا جا رہا ہے اور فنانشل مانیٹرنگ یونٹ اس حوالے سے اپنی تجاویز دے گا کیوں کہ کوئی بھی ادارہ یہ نہیں چاہتا کہ لوگوں کو مشکلات ہوں۔

پاکستان اب تک ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں کیوں ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:10:36 0:00

لبنی فاروق کہتی ہیں کہ لوگوں کے مسائل زیادہ تر ایڈجسٹمنٹ کے ہیں کیوں کہ لوگ معلومات کی فراہمی کے عادی نہیں ہیں اسی طرح بائیو میٹرک کی ہر چھ ماہ کے بعد تصدیق بھی شہریوں کے لیے مشکل پیدا کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ انسداد منی لانڈرنگ کے حوالے سے ضروریات پر سمجھوتا نہیں کیا جا سکتا البتہ اس عمل میں شہریوں کو جتنی سہولت دی جا سکتی ہے وہ دی جائے گی۔

نئے بینکنگ قواعد کے بعد کاروباری طبقے میں بینکنگ کے بجائے کیش کے ذریعے لین دین کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔

تاہم سابق وزیرِ خزانہ ڈاکٹر اشفاق حسن اسے عارضی سمجھتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ نئے قواعد کے بعد بینکنگ کے بجائے نقد رقم کے استعمال میں بہت زیادہ اضافہ نہیں دیکھا گیا۔

ان کے بقول بینکنگ کے بجائے کیش کا استعمال زیادہ عرصہ نہیں ہو سکے گا اور لوگوں کو واپس بینکنگ کی جانب آنا ہو گا۔

اشفاق حسن کہتے ہیں کہ بینک نظام میں تبدیلی سے لوگوں کو مشکلات ضرور ہو رہی ہیں جو وقت کے ساتھ حل ہو جائیں گی۔

انہوں نے کہا کہ بینکنگ قواعد ملک کے فائدے میں ہیں جس سے منی لانڈرنگ کو روکنے میں مدد ملے گی اور پاکستان نے وہی قواعد متعارف کرائے ہیں جو ایف اے ٹی ایف کی سفارشات تھیں البتہ اس کے باوجود بھی پاکستان گرے لسٹ میں برقرار رہے گا کیوں کہ یہ عالمی سیاسی معاملہ ہے۔

سابق بینکر اور معاشی مبصر شاہد حسن صدیقی کہتے ہیں کہ اسٹیٹ بینک کی ہدایات پر بینکوں نے ضرورت سے زیادہ سختی سے عمل درآمد کیا ہے اور اس طرح سے سوالات پوچھے جیسے پیسہ جمع کرانے والا کوئی مجرم ہے۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں کو بینک کے ذریعے لین دین میں اگرچہ مشکلات ہیں البتہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈیپوزٹر کے پاس بینک جانے کے علاؤہ کوئی اور چارہ نہیں ہے۔

ایف اے ٹی ایف کی گرے اور بلیک لسٹ ہے کیا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:26 0:00

شاہد حسن صدیقی کہتے ہیں کہ پاکستان نے ضرورت سے زیادہ بینک قواعد اس وجہ سے بھی لاگو کیے کیوں کہ یہ اندازہ تھا کہ ایف اے ٹی ایف تکنیکی سے زیادہ سیاسی معاملہ بن گیا ہے۔

ایف اے ٹی ایف کی سفارشات کو دیکھتے ہوئے اسٹیٹ بینک نے بینکنگ کھاتہ داروں اور کاروباری افراد کے لیے دستاویزات کی شرائط بہت بڑھا دی ہیں۔

تمام بینکوں اور مالیاتی اداروں کو پابند کیا گیا ہے کہ اکاؤنٹ رکھنے والے ہر فرد کی مکمل چھان بین کی جائے۔ فنانشنل سیکٹر میں ’اپنے کسٹمر کو پہچانیں‘ اور ’کسٹمر ڈیو ڈیلی جنس‘ کا تصور لایا گیا ہے۔

بینک اور مالیاتی ادارے اپنے صارف کے ذرائع آمدن اور اس کے کاروباری شراکت داروں کی معلومات مختلف ذرائع سے حاصل کر رہے ہیں۔ بے نامی اکاؤنٹس کی حوصلہ شکنی کے لیے ہر اکاؤنٹ ہولڈرز کی چھ ماہ کے بعد بائیو میٹرک تصدیق کی جاتی ہے۔

بینکوں کو معمول سے ہٹ کر یا زائد ٹرانزیکشن پر نظر رکھنے کا کہا گیا ہے۔ تمام بینکوں کو پابند کیا گیا ہے کہ ایک مقررہ حد سے زائد مشکوک رقم کی ٹرانسفر پر فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (ایف ایم یو) کو مطلع کیا جائے۔ ایف ایم یو اپنے طور پر کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی مدد سے مشکوک ٹرانزیکشن کی جانچ بھی کرتا ہے۔

بینکوں کو اس بات کا بھی پابند کیا گیا ہے کہ اگر کوئی کاروباری فرد روپے کی کوئی بڑی ترسیل پر وصولی کرتا ہے تو اس سے ذریعہ آمدن پوچھا جائے۔

پاکستان کے اسٹیٹ بینک کے شعبے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کی ڈائریکٹر جنرل لبنیٰ فاروق نے بتایا کہ انسدادِ منی لانڈرنگ ایکٹ میں ترامیم کے بعد اسٹیٹ بینک اور سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمشن آف پاکستان نے مشاورت سے نئے قواعد جاری کیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان قواعد کا بنیادی مقصد منی لانڈرنگ اور بے نامی اکاؤنٹس کا خاتمہ ہے۔

سابق وزیرِ خزانہ ڈاکٹر اشفاق حسن کہتے ہیں کہ ’اپنے کسٹمر کو پہچانیں‘ کا اصول اچھا ہے تاکہ اگر کسی کے اکاؤنٹ میں اچانک بڑی رقم آ جائے تو معلوم ہو سکے کہ یہ اس کے ذرائع آمدن سے مطابقت رکھتی ہے یا نہیں۔

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG