ایک کے بجائے دو والدین کا ہونا کہیں بہتر ہے ،یہ کہتے ہیں امریکہ کے مشہور کیبل چینل سی این این کے معروف میزبان اینڈرسن کوپر ۔ اینڈرسن کوپر، سروگیسی کے ذریعے پیداہونے والے دو بچوں کے باپ ہیں ۔ دس سال کی عمر میں اپنے والد کے سائے سے محروم ہو جانے والے اینڈرسن کوپر نے بچوں کو اکیلے پالنے کے بجائے ، اپنے سابقہ بوائے فرینڈ بینجمن میسانی کے ساتھ بطور والدین انہیں پروان چڑھانے کا فیصلہ کیا ۔اگرچہ دونوں کے درمیان محبت کا رشتہ برسوں پہلے ختم ہو چکا ہے لیکن کوپر سمجھتے ہیں کہ میسانی ان کے بچوں کے لیے ایک بہترین دوست اور باپ ہو سکتے ہیں، اسی لیے دونوں نے بطور دوست مل کر بچوں کو پالنے کا فیصلہ کیا۔ بچے اینڈرسن کوپر کو ڈیڈی اور بینجمن میسانی کو پاپا کہتے ہیں ۔
امریکہ میں ان لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، جو بچوں کی پرورش کے روایتی طریقوں کے بجائے اپنے دوستوں ، جانے پہچانے سپرم ڈونرز اور ایسے افراد کے سا تھ مل کر اپنے بچے پال رہے ہیں، جن سے ان کی ملاقات کسی ڈیٹنگ یا میچنگ ویب سائٹ پر ہوئی۔ شادی، طلاق اور خاندانی معاملات کے کیسز میں مدد دینے والے وکلاء کا کہنا ہے کہ ایسے غیر رومانی ، غیر روایتی انداز کے خاندان اور رشتے بنانے کا تصور اس تکلیف سے لوگوں کو آزاد کرتا ہے، جوانہیں طلاق، یا کشیدہ تعلقات اور غیر ضروری مالی بوجھ اٹھانے سے ملتی ہے۔
کسی ازدواجی تعلق کے بغیر مل جل کر بچوں کی پرورش کرنے کا تصور ایل جی بی ٹی کمیونٹی میں پہلے سے موجود ہے لیکن امریکہ میں کوویڈ وبا کے بعد بڑھتی ہوئی مہنگائی اور مکانوں کے بڑھتے ہوئے کرایوں نکے باعث سال دو ہزار بیس اور دو ہزار اکیس کے دوران یہ رجحان دیگر کمیونٹیز میں بھی بڑھ رہا ہے۔ کو پیرنٹنگ یا مل جل کر بچوں کی پرورش کے لئے آئیڈیل والدین کی تلاش کی ویب سائٹس عام ڈیٹنگ سائیٹس کی طرح ہوتی ہیں۔ ماہرین کا مشورہ ہے کہ جو لوگ ایسے غیر روایتی بندوبست کے تحت بچوں کی پرورش کرنا چاہتے ہیں، وہ کسی قانونی ماہر یا فیملی کوچ کے مشورے سے اس کا باقاعدہ معاہدہ کریں اور معاملات کو اپنے آپ طے کرنے سے گریز کریں۔
45سالہ نک فیرو کی بھی وہی خواہش تھی جو بہت سے لوگوں کی ہوتی ہے ۔ ایک بچے کی خواہش، اور جب برسوں پرانی محبت کا رشتہ ختم ہو گیا تو نک نے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیا ۔ والدین نے ایک ایسا معاہدہ کیا جس میں محبت اور شادی کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنے بچے کے لیے مناسب والدین کی پرکھ ہی اولین ترجیح بن جاتی ہے ۔
نک فیرو کی بیٹی کے کو پیرنٹ یا شریک والد ان سے تقریباً 15 میل کے فاصلے پر رہتے ہیں ان کی بیٹی باری باری دونوں کے پاس رہتی ہے ۔ دونوں مل کر اس کی سالگرہ مناتے ہیں اور دیگر خاص موقعوں پر بھی ایک دوسرے کے شیڈول کے مطابق مل کر فیصلہ کرتے ہیں ۔
نک فیرو نے اپنے بچے کے لئے کو پیرنٹ یا شریک والد کی تلاش کے لئے ایسی مٹھی بھر ویب سائٹس کا رخ کیا، جہاں خاندان کی اس نئی طرز پر تشکیل کرنے میں مدد دی جاتی ہے۔آخر کار Modamily.com پر انہیں اس تلاش میں کامیابی حاصل ہوئی ۔اس ویب سائٹ پر دوہزار گیارہ میں دنیا بھر سے تقریباً ایک لاکھ لوگوں نے خود کو رجسٹر کروایا۔
اس ویب سائیٹ کے بانی اور سی ای او ایوان فیتووچ کے مطابق اس دوران کو پیرنٹنگ کے لیے ایک دوسرے کو ویب سائیٹ کے ذریعے منتخب کرنے والے والدین کے ہاں کم از کم 1,000 بچے پیدا ہوئے ہیں۔
فیٹووچ کا کہنا تھا "کہ انہیں اندازہ ہوا کہ لوگ خاندان شروع کرنے کے لیے مختلف متبادل طریقوں کی طرف رخ کر رہے ہیں کیونکہ روایتی خاندانی نظام یقینی طور پر ان کے لیے کام نہیں کر رہا تھا اس لیے انہوں نے اس سے ہٹ کر کچھ آزمانے کا فیصلہ کیا۔"
پلاٹونک کوپیرنٹنگ ہے کیا؟
روایتی معاشروں میں شائد کوئی بھی ایسا منظر نامہ یا لفظ نہیں ہے جو پلاٹونک پیرنٹنگ یا شریک والدین کے طور پربچوں کی دیکھ بھال کی تعریف کے لیے استعمال کیا جا سکے ۔مگر اس کی کئی شکلیں ہو سکتی ہیں ۔ والدین اپنی اپنی سہولت اور ترجیحات کو ذہن میں رکھتے ہوئے بچوں کو مل کر پالنے کا ایک ایسا نظام ترتیب دیتے ہیں جس میں محبت ،رومانس ،شادی اور توقعات کا عمل دخل نا ہونے کے برابر ہو تا ہے ۔
نک فیرو جیسے بہت سے لوگ ہیں جو محبت یا شادی کے رشتے میں ناکام ہو نے کے باوجود ماں باپ کہلوانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ کو پیرنٹگ کا یہ نیا نظام انہیں امید دلاتا ہے کہ ان کی طرح کے اور لوگ بھی ہیں، جو غیر روایتی انداز کے ایسے بندوبست کا حصہ بن سکیں۔
مل جل کر بچوں کی پرورش کرنے کا تصور طلاق شدہ خاندانوں میں تو کوئی نئی بات نہیں، لیکن امریکہ میں ایسی طلاق شدہ خواتین کی تعداد بڑھ رہی ہے، جو اپنے بچوں کی پرورش کے لئے اپنی خاتون دوستوں اور خواتین رشتہ داروں سے مدد حاصل کرتی ہیں۔
تقریباً چھ سال پہلے، 39 سالہ ایشلے سمپو اپنے بیٹے کے ساتھ اپنی ایک دوست کے گھر منتقل ہو گئیں، جن کے دو بچے بھی تھے ۔ نیویارک کے علاقے بروکلین میں رہتے ہوئے ان کے لیے اخراجات اور والدین کی ذمہ داریاں اٹھانا دو بھر ہو گیا تھا جہاں گھروں کا حد سے بڑھتا کرایہ اور کم تنخواہ میں گزارا کرنا روایتی خاندانوں کے لئے بھی ایک چیلنج بنتا جا رہا ہے۔ اب ایشلے اور ان کی دوست مل کر تین بچوں اور ایک گھر کے اخراجات اٹھا رہی ہیں اورنتیجے میں تینوں بچوں کو دو افراد پر مبنی سرپرستوں کا پیار اور نسبتاً خوشحال طرز زندگی میسر آ رہی ہے ۔ ظاہر ہے اس نظام کے اپنے چیلنجز ہیں۔
ایسے شراکت داری پر مبنی تعلق کوچلانے کےلیے ایک نظام وضع کرنے اور سوچ بچار کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ اس وقت اور مشکل ہو سکتا ہے جب خاندان میں کئی قسم کے والدین شامل ہوں ۔ سپرم ڈونر، سروگیسی کے ذریعے دنیا میں آنے والے بچوں کے حقیقی والدین اور پروان چڑھانے والے والدین ۔۔۔سبھی بچوں کی پرورش کے اس اہم کام میں اپنا حصہ اور کردار ادا کر سکتے ہیں ۔
کئی لوگ وکلاء یا فیملی کوچز کی مدد سے کو پیرنٹگ یا شراکت داری پر مبنی پرورش کے رشتے بنانے کے معاہدے کررہے ہیں تاکہ قواعد و ضوابط طے ہوں، کچھ معاملات واضح کر لیے جائیں ،جیسے مذہب،مالی معاملا ت، بچوں کی تعلیم ،رہائش کے اخراجات سمیت دیگر پہلووں کو ذہن میں رکھا جاتا ہے ۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ دونوں والدین ایک ہی چھت کے نیچے رہیں، لوگ اپنی سہولت کے لیے یا تو ایک دوسرے کے قریبی علاقوں میں منتقل ہو جاتے ہیں یا پھر ایسے اپارٹمنٹس میں جہاں وہ بچوں کی ذمے داریاں مل کر اٹھا سکیں اور اپنی زندگیاں بھی اپنے اپنے طریقوں سے گزار سکیں ۔
لیکن ضروری نہیں کہ لوگ ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ اسی طرح بغیر کسی قلبی تعلق کے ہی رہیں۔ بعض شریک والدین کے درمیان محبت بھی پروان چڑھ سکتی ہے اور یہ بھی ہوتا ہے کہ خاندان کا یہ اسٹرکچر ان کے لیے کسی سطح پر پریشانی کا باعث ہو سکتا ہے ۔ دونوں صورتوں میں شریک والدین بچوں کی بہبود کو ذہن میں رکھتے ہوئے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرتے ہیں ۔
ایک وقت تھا جب ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے پیدا ہونے والے بچے لوگوں کے لیے حیران کن تھےاور شائد کسی حد تک کوئی مناسب متبادل بھی نہیں تھا لیکن آج بات سروگیسی سے ہوتی ہوئی پلاٹونک والدین تک آ پہنچی ہے ۔ لیکن اس سے ایک بات تو واضح ہے کہ انسان کا انسان کے ساتھ تعلق چاہے کوئی بھی شکل بدلے اس کی ماں یا باپ بننے کی خواہش کہیں نا کہیں موجود رہتی ہے ۔
(اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)