پاکستان میں روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قدر میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے۔ یکم نومبر سے لے کر اب تک انٹربینک میں پاکستانی روپیہ ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں 220 سے 224 روپے کے درمیان رہا ہے۔بدھ کو انٹربینک میں کاروبار کے اختتام پر ایک امریکی ڈالر 224 روپے 71 پیسے پر بند ہوا۔ تاہم اوپن مارکیٹ کی صورتِ حال مختلف ہے اور مارکیٹ میں باآسانی ڈالر دستیاب بھی نہیں ہے۔
انٹربینک کے ریٹ کودیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ستمبر میں امریکی ڈالر کی قیمت انٹربینک میں 239 روپے 71 پیسے پر پہنچنے کے بعد اس میں بتدریج کمی ہوئی ہے۔ لیکن دوسری جانب اوپن مارکیٹ میں امریکی ڈالر کا کم سے کم ریٹ 234 روپے ہے جب کہ بعض شہروں بالخصوص پشاور میں امریکی ڈالر کا ریٹ 260 روپے بھی بتایا جا رہا ہے۔
فاریکس مارکیٹ سے جُڑے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس سب کی بنیادی وجہ مارکیٹ میں امریکی ڈالر کی شدید قلت ہے، جس کے باعث فارن ایکسچینج مارکیٹ بحران کا شکار دکھائی دے رہی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ قلت تقریباً تین ہفتوں سے اس لیے برقرار ہے کیوں کہ حکومت ڈالرز کے موجودہ ذخائر کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ بینکوں کو بھی غیر رسمی طور پر درآمدات کے لیے لیٹر آف کریڈٹ (ایل سی) نہ کھولنے اور بیرونِ ملک سے مزید سامان منگوانے کےلیے فارورڈ بکنگ سے گریز کرنے کی زبانی ہدایات جاری کی جا رہی ہیں۔
ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اقدس افصل سمجھتے ہیں کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی عدم موجودگی کی بنیادی وجہ وزیرِخزانہ اسحاق ڈار کی ایکسچینج سے متعلق کنٹرولڈ پالیسی ہے۔
اگرچہ پاکستانی حکام نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے ہونے والے معاہدے کی روشنی میں ایکسچینج ریٹ کو مارکیٹ کے طے کردہ ریٹ پر ہی رکھنے کا یقین دلایا تھا۔
تاہم ڈاکٹر اقدس افضل کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے انتظامی طور پر ڈالر کی قیمت کو کنٹرول میں رکھنے سے روپے کی قدر کسی حد تک مستحکم تو ضرور ہے اور اس سے بیرون ملک سے آنے والی اشیا کی قیمتوں میں بھی کسی حد تک استحکام نظر آرہا ہے اور افراط زر کی شرح کنٹرول میں ہے،لیکن اس کا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ ڈالرز کی گرے مارکیٹ بڑھ رہی ہے۔
ان کے بقول لوگ بینکنگ چینلز کے بجائے حوالہ اورہنڈی کے ذریعے رقم بھیجنے کو فوقیت دے رہے ہیں، جہاں پاکستانی روپے میں زیادہ اچھا ریٹ مل رہا ہے اور ملک میں قانونی طریقے سے آنے والی ترسیلات زر کا رخ مڑ رہا ہے۔
دوسری جانب ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت انٹربینک مارکیٹ میں امریکی ڈالر کی شرح کو کنٹرول کرنے کے لیے انتظامی اقدامات نہ کرتی تو یہ قیمت 230 روپے یا اس سے اوپر تک جاسکتی تھی۔جس سے ایندھن، خوردنی تیل، بجلی اور دیگر خام مال مزید مہنگا ہوجاتا، یوں ملک میں مہنگائی کا ایک نیا طوفان کھڑا ہوجاتا۔
انہوں نے کہا کہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک میں استعمال ہونے والی اہم اشیا کی بہت بڑی مقدار بیرونِ ملک سے منگوائی جاتی ہے اور پاکستان کے پاس اس وقت ڈالرز کی شدید کمی ہے جب کہ دوسری جانب آنے والے ہفتوں میں بھی کوئی بڑی غیر ملکی زرمبادلہ کی رقم خزانے میں آنے کی توقع کم ہے لیکن اس کے برعکس پاکستان کے ذمے ادائیگیوں کا ایک بڑا پہاڑ ہے۔
معاشی ماہر کہتے ہیں کہ ملکی خزانے میں ڈالر آ کم رہا ہے اور جا زیادہ رہا ہے۔ جس کے باعث اس وقت امریکی ڈالر کی مانگ زیادہ ہےاور یہی اس کی قیمت میں اضافے کی وجہ بن رہا ہے۔
دوسری جانب ابھی اس بات کے امکانات بھی معدوم ہیں کہ آئی ایم ایف سے پاکستانی معیشت کے نویں جائزے کے بعد بھی فوری طور پر قرض کی نئی قسط جاری کردی جائے۔
آئی ایم ایف کی پاکستان میں نمائندہ ایستھر پیرز روئیز نے منگل کو صحافیوں کو بتایا کہ اب تک حکومت کے ساتھ ہونے والی بات چیت نتیجہ خیز رہی ہے۔ اور فنڈ نے سیلاب کے بعد میکرو اکنامک آؤٹ لُک پر نظرثانی کے ساتھ ساتھ مالیاتی، زری، شرح مبادلہ اور توانائی کی پالیسیوں کا گہرائی سے جائزہ لیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایم ایف حکومتِ پاکستان کے ساتھ ایسی پالیسیوں پر بات چیت جاری رکھنے کا منتظر ہے جو سیلاب سے انسانی اور بحالی کی ضروریات کو مناسب طریقے سے پورا کریں اور دستیاب مالیاتی امداد کے ساتھ مالی اور بیرونی استحکام کو بھی محفوظ رکھے۔
معاشی تجزیہ کار ملک میں ڈالر کی کمی کی ایک وجہ اس کی افغانستان اسمگلنگ کو بھی قرار دیتے ہیں، جس پر قانون نافذ کرنے والے ادارے بارڈر کراسنگ اور شہروں میں کئی مقامات پر چھاپے مار کر کرنسی برآمد کرنے کا دعویٰ بھی کرتے آئے ہیں۔
وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے بھی ڈالر کی اسمگلنگ روکنے کے لیے کریک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا۔ اس سلسلے میں کی گئی ایک کارروائی کے دوران پاکستان افغانستان سرحد چمن گیٹ پر ایک لاکھ سے زائد ڈالر اور کروڑوں روپے کی پاکستانی کرنسی برآمد کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
تین روز قبل ایف آئی اے پشاور نے ایک چھاپے کے دوران ایک افغان باشندے سے لاکھوں روپے کی غیرقانونی کرنسی قبضے میں لینے کا دعویٰ کیا ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ ملزم ہنڈی اور حوالے کے غیر قانونی کاروبار میں ملوث تھا۔ جس سے 45لاکھ 70ہزارپاکستانی اور 14 ہزار افغان کرنسی سمیت ہنڈی حوالہ کی رسیدیں بھی برآمد کرلی گئی ہیں۔
صدر فاریکس ایکسچینجز ایسوسی ایشن پاکستان ملک بوستان نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ سرحدی گزرگاہوں پر حالیہ چھاپوں کے نتیجے میں ڈالر کی قد ر میں کمی آسکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے سخت اقدامات جاری رہے تو افغانستان کے اندر اسمگلنگ کی کوششوں کو مکمل طور سےروکا بھی جاسکتا ہے جس سے ملک میں ڈالر کی قدر میں کمی واقع ہوگی۔