پاکستان کی سینیٹ کو آگاہ کیا گیا ہے کہ امریکہ کی جیل میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے اپنی سزا معافی کے لیے رحم کی درخواست پر دستخط کر دیے ہیں۔
پارلیمانی امور کے حوالے سے وزیرِ اعظم عمران خان کے مشیر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رحم کی اپیل دائر کرنے پر تحفظات تھے لیکن اب انہوں نے اس پر دستخط کر دیے ہیں۔
ان کے مطابق جیل انتظامیہ کی جانب سے رحم کی یہ درخواست امریکہ کے صدر کو ارسال کر دی گئی ہے۔
قبل ازیں رواں سال مئی میں پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے سندھ ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ امریکی جیل حکام کے مطابق ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے اپنی سزا معافی کے لیے رحم کی درخواست پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
واضح رہے انہیں مبینہ طور پر افغانستان میں حراست کے دوران امریکی فوج اور ایف بی آئی کے افسران پر فائرنگ کرنے کے الزام سزا دی گئی تھی۔
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کی جانب سے اٹھائے گئے سوال کے جواب میں مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان کا کہنا تھا کہ اگر ہمارے پاس اختیار ہوتا تو 24 گھنٹوں کے اندر عافیہ صدیقی کو واپس پاکستان لے آتے۔
بابر اعوان نے بتایا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے پاکستان کے قونصلر جنرل کی ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے حالیہ دنوں میں ملاقات نہیں ہو سکی ہے۔ تاہم ان کی صحت بہتر ہے اور وہ ای میل کے ذریعے اہل خانہ سے رابطے میں ہیں۔
پاکستان میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ صدیقی کے وکیل عرفان عزیز ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ امریکہ کی حکومت نے پاکستان کو پیشکش کی ہے کہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اپنی باقی قید اپنے ملک میں کاٹ لیں جو کہ عالمی قانون بھی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے دفترِ خارجہ نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے غلط فورم پر پٹیشن جمع کرائی جس کے باعث دو سال کا وقت ضائع ہوا۔
انہوں نے کہا کہ اب اگر دفترِ خارجہ نے صحیح قانونی فورم استعمال کیا ہے تو وہ پر امید ہیں کہ جلد اس پر مثبت پیش رفت سامنے آئے گی۔
عرفان عزیز ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ جس طرح امریکہ کی حکومت سنجیدہ ہے اس لحاظ سے اگر پاکستان سنجیدگی سے اقدامات لے تو ڈاکٹر عافیہ صدیقی بہت جلد پاکستان میں ہوں گی۔
خیال رہے کہ امریکی حکومت پاکستان کی جیل میں قید ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کی خواہش رکھتی ہے۔ گزشتہ برس امریکہ کے دورے کے دوران وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ شکیل آفریدی کی رہائی کے بدلے عافیہ صدیقی کی رہائی پر آنے والے دنوں میں گفت و شنید ہو سکتی ہے۔
سندھ ہائی کورٹ نے بھی مئی 2013 میں ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے دائر کی جانے والی ایک درخواست میں وفاقی حکومت کو ہدایات جاری کی تھیں کہ وہ امریکہ کے ساتھ باہمی معاہدوں کی رو سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے کوئی راستہ تلاش کرے۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی پاکستان واپسی کے بدلے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی پر کافی عرصے سے بحث ہو رہی ہے۔ تاہم اس حوالے سے حکومتی سطح پر کوئی مصدقہ پیش رفت سامنے نہیں آئی۔
واضح رہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان اب تک قیدیوں کے تبادلے سے متعلق کوئی معاہدہ طے نہیں ہے۔ جولائی 2019 میں وزیرِ اعظم عمران خان نے 'فاکس نیوز' کو دیے گئے انٹرویو میں اشارہ کیا تھا کہ اس معاملے پر دونوں ممالک مستقبل میں بات چیت کر سکتے ہیں۔ لیکن اب تک اس بارے میں کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔
ڈاکٹر عافیہ کون ہیں؟
امریکہ سے گریجوایشن اور پھر پی ایچ ڈی کرنے والی نیورو سائنس دان 47 سالہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی اپنے تین کمسن بچوں کے ہمراہ 2003 میں پاکستان سے پراسرار طور پر لاپتا ہو گئی تھیں جس کے بعد ان کی موجودگی کا انکشاف افغانستان میں بگرام کے امریکی فوجی اڈے میں ہوا تھا۔
سال 2010 میں ایک امریکی عدالت نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی فوجی پر حملے کے جرم سمیت سات مختلف الزامات میں 86 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ تاہم ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں بندوق چلانے کا کوئی علم نہیں اور نہ ہی انہوں نے کوئی ایسا جرم کیا تھا۔
ڈاکٹر عافیہ کا مؤقف تھا کہ وہ اس کمرے سے بھاگنے کی کوشش کر رہی تھیں جس میں انہیں قید کر کے رکھا گیا تھا اور وہاں سے انہیں کسی اور خفیہ جیل منتقل کرنے کا پروگرام تھا۔
ڈاکٹر عافیہ نے دورانِ سماعت امریکی حکومت کی جانب سے فراہم کیے گئے وکلا پر بھی عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا۔
جون 2018 میں ہیوسٹن میں تعنیات پاکستانی قونصل جنرل کی ایک رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر عافیہ کو امریکی جیل میں ذہنی، جسمانی اور جنسی تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا ہے۔