امریکہ کی ریاست نیو ہیمپشائر میں جولائی 1944 میں 44 ممالک کے 730 نمائندے جمع ہوئے۔ اس اجلاس کا مقصد عالمی سطح پر درپیش معاشی چلینجز کا حل نکالنا تھا۔ اس کانفرس میں ایک ایسا معاہدہ طے پایا جس نے ڈالر کو دنیا کی طاقت ور ترین کرنسی بنا دیا۔
اس کانفرنس میں ہونے والے بریٹن وڈز معاہدے کے بعد ڈالر کو دنیا میں ریزرو کرنسی کی حیثیت حاصل ہو گئی جس کے بعد دنیا میں تجارتی لین دین کے لیے ڈالر کا استعمال شروع ہو گیا۔
آج دنیا کے کئی ممالک اسے اپنی کرنسی کے طور پر استعمال کرتے ہیں جب کہ متعدد ممالک میں ڈالر لین دین کے لیے قابلِ قبول ہے۔ ڈالر کو حاصل ہونے والی اس مرکزی حیثیت کا براہ راست تعلق گزشتہ صدی میں پیش آنے والے عالمی حالات سے ہے۔
ڈالر کا آغاز
یو ایس کرنسی ایجوکیشن پروگرام کے مطابق امریکہ میں کاغذی کرنسی کی ابتدا 1690 میں ہوئی تھی جب میساچوسٹس بے میں فوجی اخراجات کے لیے کرنسی نوٹس جاری کیے گئے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب امریکہ برطانیہ کی نو آبادیات میں شامل تھا۔
امریکہ کے اعلانِ آزادی سے نو دن قبل 1776 میں دو ڈالر کا نوٹ جاری کیا گیا اور 1785 میں امریکی ڈالر کے لیے اسپینش امریکن پیسو کی علامت کو ڈالر کی علامت کے طور پر اختیار کر لیا گیا۔
اس کے بعد 1863 میں حکومت نے کومپٹرولر آف دی کرنسی اور نیشنل کرنسی بیورو قائم کیے۔ ان دو اداروں کی ذمے داری نئے بینک نوٹس کی نگرانی تھی۔ کرنسی کی مرکزی سطح پر چھپائی کا آغاز 1869 میں ہوا۔ اس سے پہلے کرنسی نوٹ نجی کمپنیاں چھاپ رہی تھیں۔
سونا اور کرنسی
امریکہ نے 1913 میں اپنا مرکزی بینک فیڈرل ریزرو قائم کیا اور مرکزی سطح پر کرنسی کی چھپائی کا آغاز ہوا۔ مؤرخین کے مطابق یہ وہ دور ہے جب امریکہ میں تیزی سے صنعتیں قائم ہو رہی تھیں اور شہری آبادی میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
سرمایہ کاری سے متعلق معلومات فراہم کرنے والی امریکی ویب سائٹ ’انویسٹو پیڈیا‘ کے مطابق صنعتی انقلاب کی وجہ سے امریکہ پہلی عالمی جنگ سے قبل ہی دنیا کی بڑی معیشت بن چکا تھا۔ اس سے قبل امریکہ کی معیشت کا محور دیہات اور انحصار زراعت پر تھا۔
نوآبادیاتی قوت کے طور پر دنیا کی تجارت میں برطانیہ کا حصہ سب سے زیادہ رہا تھا اور اس لیے بین الاقوامی سطح پر لین دین کے لیے اس کی کرنسی سب سے زیادہ استعمال ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک اپنی کرنسی کی قدر کا تعین سونے کی بنیاد پر کرتے تھے۔
لیکن 1914 میں پہلی عالمی جنگ کے بعد کئی ممالک کو شدید معاشی بحران کا سامنا تھا۔ اس لیے جنگ میں شریک اور متاثرہ کئی ممالک نے دفاعی اخراجات پورے کرنے کے لیے کرنسی کی قدر کے تعین کے لیے سونے کا پیمانہ ترک کر دیا۔
امریکہ کے فیڈرل ریزرو بلیٹن کے مطابق برطانیہ کا پاؤنڈ اس وقت بھی دنیا کی اہم ترین کرنسی تھا البتہ پہلی عالمی جنگ کے دوران برطانیہ کو بھی قرضے لینا پڑے لیکن اس نے کرنسی کی قدر کے لیے سونے کا معیار ترک نہیں کیا۔ اپریل 1917 میں امریکہ نے اپنے اتحادیوں برطانیہ، فرانس اور اٹلی کو بھاری قرضے دیے۔
جنگ ختم ہونے کے بعد 1920 تک برطانیہ کی دنیا کو سب سے زیادہ قرض دینے والے ملک کی حیثیت برقرار رہی لیکن اس کے اثاثوں میں 1914 کے مقابلے میں ایک چوتھائی کمی آ گئی۔ اس کے علاوہ جنگ کے دوران برطانیہ نے امریکہ سے 11 ارب ڈالر کے قرضے لیے اور امریکہ قرض دینے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک بن گیا۔
بعد ازاں 1931 میں برطانیہ نے بھی سونے کا معیار یا گولڈ اسٹینڈرڈ کو ترک کر دیا جس کی وجہ سے پاؤنڈ میں لین دین کرنے والے بین الاقوامی سودا گروں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ اس وقت تک عالمی تجارت میں ڈالر پاؤنڈ کی جگہ لے چکا تھا۔
عالمی جنگ اور عالمی کرنسی
پہلی عالمی جنگ کی طرح دوسری عالمی جنگ میں بھی امریکہ لڑائی شروع ہونے کے بعد فریق بنا تھا۔ جنگ میں باقاعدہ طور پر شریک ہونے سے پہلے امریکہ اتحادی افواج کو ساز و سامان اور ہتھیار فراہم کرنے والا مرکزی ملک تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
جنگ کے دوران ہتھیاروں اور دیگر ضروریات کے حصول کے لیے اتحادی ممالک نے امریکہ کو ادائیگیاں سونے میں کی تھیں۔ جس کی وجہ سے دوسری عالمی جنگ ختم ہونے تک دنیا میں سونے کے ذخائر کا زیادہ تر حصہ امریکہ کے پاس چلا گیا تھا۔
جن ممالک کے سونے کے ذخائر کم و بیش ختم ہو گئے تھے ان کے لیے اپنی کرنسی کی قدر کے تعین کے لیے دوبارہ سونے کے معیار پر واپس آنا مشکل تھا۔
بریٹن وڈز معاہدہ
دوسری عالمی جنگ سے پیدا ہونے والی اس صورت حال کے جائزے کے لیے جنگ کے دوران ہی 1944 میں 44 ممالک کے 730 مندوبین امریکہ کی ریاست نیو ہیمپشائر کے علاقے بریٹن وڈز میں جمع ہوئے۔ اس اجلاس کا بنیادی مقصد دنیا کے لیے زرِمبادلہ کا ایسا نظام تشکیل دینا تھا جس سے ان ممالک کی معاشی مشکلات کا ازالہ ہو جائے۔
مندوبین نے طے کیا کہ جنگ سے پیدا ہونے والی صورت حال کی وجہ سے اب زرِمبادلہ کے ذخائر سونے میں رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس لیے کرنسی کی قدر کے لیے ڈالر کو معیار مقرر کر لیا جائے۔
ڈالر کا انتخاب کرنے کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ اس وقت دنیا میں سونے کے سب سے زیادہ ذخائر امریکہ کے پاس تھے اور ڈالر کی قدر کا تعین بھی سونے ہی سے ہوتا تھا جو کہ اس وقت 35 ڈالر فی اونس(دو اعشاریہ 43 تولہ) تھی۔
ڈالر کو زرِمبادلہ کے لیے معیار بنانے کے اس سمجھوتے کو ’بریٹن وڈز معاہدہ‘ کہا جاتا ہے اور اس کے تحت زرِ مبادلہ کے لیے قائم ہونے والے نظام کو ’بریٹن وڈز سسٹم‘ کا نام دیا گیا۔ اس معاہدے کے بعد عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) اور عالمی بینک بھی قائم کیے گئے۔
بریٹن وڈ معاہدہ اور سسٹم کے لیے تین ہفتے تک اجلاس جاری رہا تھا لیکن اس کے لیے سوچ بچار کئی برسوں سے جاری تھی۔ بنیادی طور پر معروف برطانوی معیشت داں جون مینار کینس اور امریکہ کے محکمۂ خزانہ کے چیف بین الاقوامی ماہرِ اقتصادیات ہیری ڈیکسڑ وائٹ نے یہ نظام تشکیل دیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
کینیس مستحکم زرِمبادلہ کے نظام کے قیام کے لیے عالمی سطح پر ایک بااختیار مرکزی بینک بنانے کی تجویز دے رہے تھے۔ اس کے لیے انہوں نے ایک عالمی کرنسی ’بینکور‘ جاری کرنے کی تجویز بھی دی تھی۔
امریکی ماہر معیشت ڈیکسٹر وائٹ کے خیال میں نئی کرنسی بنانے کی بجائے امریکہ کی کرنسی ڈالر کو عالمی سطح پر زرِمبادلہ کے طور پر اختیار کرنا زیادہ بہتر تھا کیوں کہ ڈالر کی قدر کا تعین بھی سونے سے ہوتا تھا۔ کانفرنس کے شرکا میں سے زیادہ تر وائٹ کے منصوبے کو زیادہ قابلِ عمل سمجھتے تھے جس کے بعد یہ معاہدہ طے پا گیا۔
اس معاہدے کے بعد امریکی ڈالر کو ’ریزرو کرنسی‘ یا زرِمبادلہ کے لیے استعمال ہونے والی کرنسی کی حیثیت حاصل ہو گئی۔
ریزرو کرنسی
ریزرو کرنسی سے مراد یہ ہے کہ دنیا بھر کے ممالک میں مرکزی بینکوں کو سرمایہ کاری، ترسیلات، بین الاقوامی قرضوں اور درآمدات و برآمدات کی ادائیگیوں کے لیے اور مقامی سطح پر اپنی کرنسی کی قدر کے تعین کے لیے جس کرنسی کے ذخائر رکھنا ضروری ہوں۔ بریٹن وڈ سسٹم کے تحت یہ حیثیت ڈالر کو حاصل ہو گئی۔
ریزرو کرنسی ہی کی بنیاد پر مختلف اشیائے صرف، سونے اور تیل وغیرہ کی قیمتوں کا تعین بھی کیا جاتا ہے کیوں کہ ان کی خریداری کے لیے بھی جو زرِ مبادلہ درکار ہوتا ہے وہ اسی ریزرو کرنسی یعنی ڈالر میں ادا کیا جاتا ہے۔
اس لیے کسی بھی ملک میں ڈالر کی قدر میں اضافہ یا کمی وہاں کے معاشی حالات سے براہ راست تعلق رکھتی ہے۔ اسی وجہ سے ڈالر کو عالمی نظام معیشت میں ایک مرکزی حیثیت حاصل ہو گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈالر اور سونا
ڈالر کو ریزرو کرنسی کی حیثیت ملنے کے بعد دنیا کے دیگر ممالک نے سونے کے ذخائر جمع کرنے کی بجائے امریکی ڈالر خریدنا شروع کر دیے۔
لیکن 60 کی دہائی تک امریکہ کے پاس زیرِ گردش ڈالر کے کرنسی نوٹوں کی قیمت کے اعتبار سے سونا ناکافی ہو گیا اور یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ امریکہ کے سونے کے ذخائر ختم ہو جائیں گے۔
امریکی تھنک ٹینک کونل آن فارن ریلیشنز کے مطابق اس مرحلے پر بریٹن وڈز سسٹم کو بچانے کی کئی کوششیں کی گئیں جو کارگر ثابت نہیں ہو سکیں اور بالآخر اگست 1971 میں صدر نکسن نے ڈالر کے سونے میں قابلِ تبادلہ ہونے کے بریٹن وڈز سسٹم کا خاتمہ کر دیا۔
اس فیصلے کے بعد بھی ترقی یافتہ ممالک نے ڈالر کی قدر میں کمی کے بعد شرح تبادلہ سے متعلق چند فیصلے کر کے پرانے نظام کو بچانے کے لیے ’سمتھونین معاہدہ‘ کیا لیکن یہ کوشش بھی کارگر ثابت نہیں ہوئی۔
سن 1973 کے بعد سے دنیا میں کرنسی کی قدر اور شرح تبادلہ کے تعین کا موجودہ طریقہ رائج ہو گیا۔ اس میں مختلف ممالک نے دو طرح کے طریقۂ کار اختیار کیے۔
اس میں ایک طریقہ شرح تبادلہ (ایکسچینج ریٹ) کے لیے کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ شرح کی حد یا رینج کا تعین ہے جب کہ کئی ممالک نے اپنی کرنسی کو کسی دوسری کرنسی مثلاً ڈالر کی قدر کے ساتھ منسلک کر دیا۔
ڈالر اپنی جگہ قائم رہا
بریٹن ووڈز سسٹم ختم ہونے کے باوجود ڈالر کی ریزرو کرنسی کی حیثیت برقرار رہی۔ آئی ایم ایف کے اعداد و شمار کے مطابق 2020 میں دنیا بھر کے مرکزی بینکوں میں زر مبادلہ کے ذخائر 59 فی صد ڈالر میں ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے کے مطابق 2021 کی دوسری سہ ماہی تک دنیا میں زرمبادلہ کے ذخائر میں سات ہزار ارب ڈالر سے زائد موجود ہیں۔
SEE ALSO: تیل کی قیمتوں میں عالمی سطح پر دگنا اضافہ؛ ’پاکستان میں لوگوں کی قوتِ خرید کم ہے‘ماہرین کے مطابق عالمی سطح پر ڈالر کے لین دین کے لیے استعمال ہونے کی ایک بنیادی وجہ امریکہ کی معیشت کا حجم ہے۔
عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق درآمدات و برآمدات کی عالمی منڈی میں امریکہ کا حصہ 12 فی صد سے زائد ہے۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر مختلف ممالک کو اپنے زرِمبادلہ کے ذخائر ایک خاص حد تک رکھنے کے لیے ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لیے امریکہ کی حکومت ڈالر کے بانڈز اور ٹریژری بلز بھی جاری کرتی ہے۔ اسی لیے عالمی سطح پر سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی ڈالر کو حاصل ہے۔
ڈالر اور اقتصادی پابندیاں
کونسل آن فارن ریلیشنز کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی لین دین کے نظام میں ڈالر کو حاصل مرکزیت امریکہ کی اقتصادی پابندیوں کی قوت کو بھی بڑھاتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں چوں کہ اکثر تجاری لین دین میں ڈالر کا استعمال ہوتا ہے اس لیے ڈالر میں لین دین کرنے والے ممالک کے کارسپانڈنگ بینکوں کے اکاؤنٹ امریکہ کے فیڈرل ریزرو بینک میں ہوتے ہیں۔ اس لیے امریکہ کی پابندیوں کی صورت میں بلیک لسٹ ہونے والے اداروں کے لیے لین دین میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 2015 میں فرانسیسی بینک بی این پی پریبا کو کیوبا، ایران اور سوڈان پر ڈالر میں ادائیگی کی پابندی کے باجود رقوم کی منتقلی کی وجہ سے نو ارب ڈالر کا ریکارڈ جرمانہ ہوا تھا۔
ڈالر کا مستقبل
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اقتصادی پابندیوں کے لیے ڈالر کی بالادستی کے استعمال کے باعث امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے بھی زرِمبادلہ کا متبادل لانے کی کوشش کی ہے۔
خاص طور پر جب صدر ٹرمپ نے 2018 میں ایران کے ساتھ معاہدہ ختم کر کے پابندیاں عائد کیں تو معاہدے میں شامل یورپی ممالک سمیت روس اور چین نے ایران کے ساتھ تجارت جاری رکھنے کے لیے ادائیگیوں کا متبادل نظام بنانا شروع کیا۔ اس کے علاوہ گزشتہ برس روس اور چین نے بھی باہمی تجارت میں ڈالر کا استعمال کم کر دیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ماہرین کے مطابق کرونا وائرس کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے باعث امریکہ کے بیرونی قرضوں میں اضافے سے ڈالر کے بطور ریزرو کرنسی سے متعلق تحفظات میں اضافہ ہوا ہے۔
آئی ایم ایف کے رواں برس پانچ مئی کو جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق انہی تحفظات کی وجہ سے دنیا میں ڈالر کے زرِمبادلہ کے ذخائر گزشتہ 25 برس میں کم ترین سطح پر آ گئے ہیں۔ اس سے قبل دنیا کے 70 فی صد زرِمبادلہ کے ذخائر ڈالر میں تھے لیکن اب یہ شرح 59 پر آ چکی ہے۔
یورو، یوآن اور ڈیجیٹل کرنسی
بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے امریکی ڈالر کے علاوہ سات دیگر کرنسیز بھی ریزرو کرنسی یا زرِمبادلہ کے طور پر منظور شدہ ہیں۔
ان میں آسٹریلوی ڈالر، برطانوی پاؤنڈ، کینیڈین ڈالر، چینی کرنسی رینمنبی (یوآن اس کی اکائی ہے)، یورو، جاپانی ین اور سوئز فرینک شامل ہیں۔
ان کرنسیز میں یورو اور چینی کرنسی کو ڈالر کے متبادل کے طور پر استعمال کرنے کے لیے کوششیں کی گئی ہیں جب کہ ڈیجیٹل کرنسی کو بھی مستقبل میں بین الاقومی سطح پر لین دین کے لیے استعمال کی دوڑ میں ڈالر کا حریف قرار دیا جا رہا ہے۔
لیکن اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں ڈالر کے سب سے بڑی ریزرو کرنسی کے مقام کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔
سن 2008 میں آنے والے اقتصادی بحران کے بعد بھی ڈالر کے بین الاقوامی استعمال ختم ہونے کے خدشات ظاہر کیے گئے تھے۔ اس بارے میں امریکی ماہرِ معاشیات بیری ایچن گرین نے ڈالر کے مستقبل سے متعلق اپنی کتاب ’ایگزوربیٹنٹ پریولیج‘ میں لکھا تھا کہ ڈالر کی اصل قوت عالمی تجارت میں اس کا استعمال اور لین دین کرنے والے ممالک کے لیے پُرکشش ہونا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تجارت اور مالیات میں جب تک ڈالر کا ایسا کوئی متبادل سامنے نہیں آتا جو اس جتنا ہی قابل اعتماد ہو، تو اس وقت تک اس کی مرکزی حیثیت کو کوئی خطرہ نہیں۔ اب تک اس کے متبادل کے طور پر یورو، چینی کرنسی یا دیگر سامنے آئی ہیں ان میں سے کوئی بھی ڈالر جتنا قابل اعتبار ثابت نہیں ہو سکا ہے۔ اس لیے کم از کم آئندہ کئی دہائیوں میں زرِمبادلہ کے طور پر اس کے استعمال یا ریزرو کرنسی کی حیثیت کو کوئی بڑا خطرہ نہیں۔