پاکستان کے وفاقی وزیر اور مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما خرم دستگیر خان نے کہا ہے کہ حکومت پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ لیکن اگر ایسے شواہد سامنے آتے ہیں کہ پاکستان کے مفادات اور عوام کے جان و مال کو بطور جماعت دانستہ نقصان پہنچایا گیا ہے تو اس پر ضرور سوچا جا سکتا ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کی رہنما شیریں مزاری نے کہا ہے کہ ہماری حکمتِ عملی احتجاج ہی ہے اور یہ پہلے سے طے تھا کہ اگر گرفتاری ہوئی تو ہم کیا کریں گے۔ ان کے بقول عمران خان نے کہا تھا کہ عوام کو میں نے سنبھالا ہوا ہے، اگر مجھے کچھ ہوا تو حالات نہیں سنبھلیں گے۔ فوجی تنصیبات پر حملے روکے نہیں جا سکتے تھے۔
اجلاس میں پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری ، روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف ، چینی وزیر خارجہ کن گینگ کے علاوہ تنظیم کے دیگر رکن ممالک کے اعلیٰ سفارت شرکت کررہے ہیں۔
وزیرِخارجہ بلاول کا دورۂ بھارت ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب بھارت کی جانب سے 2019 میں کشمیر کی خود مختار حیثیت کے خاتمے کے بعد سے دونوں ملکوں کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں۔ دونوں ملکوں نے دورے میں دو طرفہ ملاقاتوں کے امکان کو رد کیا ہے، تاہم ماہرین کے مطابق وزیرِ خارجہ بلاول کا بھارت جانا ہی اہم ہے
ماہرین کے مطابق پاکستان کو اندرونی طور پر خراب معاشی حالات میں امریکہ اور مغربی ممالک کے دباؤ کا سامنا ہے تو دوسری طرف چین کے ساتھ دیرینہ اسٹرٹیجک شراکت داری ہے۔
جمعرات کو سپریم کورٹ نے انتخابات کے مقدمے کی مختصر سماعت میں کہا کہ مذاکرات کے لیے سیاسی جماعتوں کو تجویز دے سکتے ہیں ان پر دباؤ نہیں ڈال سکتے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کا اجلاس مئی کے پہلے ہفتے میں بھارت کے شہر گوا میں ہو رہا ہے۔دفتر خارجہ کے ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری بھی اس اجلاس میں شریک ہوں گے۔
منگل کو اس حوالے سے اتحادی جماعتوں کا اجلاس بھی بے نتیجہ رہا تھا۔ تاہم بدھ کو اٹارنی جنرل آف پاکستان نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ مولانا فضل الرحمٰن کو منانے کی کوششیں جاری ہیں اور بدھ کو بلاول بھٹو زرداری اس ضمن میں اُن سے ملاقات کر رہے ہیں۔
پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر پرویز اشرف کا کہنا ہے کہ اگر پارلیمان کے قانون سازی کے اختیار کو تسلیم نہیں کرنا تو پھر الیکشن کا مذاق بھی ختم کردیں۔ اگر سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے دائرہ کار میں مداخلت کرے گی تو پھر دوسرے ادارے بھی ان کی حدود میں مداخلت کریں گے۔
اسپیکر قومی اسمبلی پرویزاشرف کا کہنا ہے کہ اگر سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے دائرہ کار میں مداخلت کرے گی تو پھر دوسرے ادارے بھی حدود سے تجاوز کریں گے۔ پارلیمان کے قانون سازی کے اختیار کو تسلیم نہیں کرنا تو انتخابات کا مذاق بھی ختم کردیں۔ قدغن لگا دی جائے گی تو صرف وہی قانون سازی ہوگی جو سپریم کورٹ کہے گی۔
ماہر معاشیات ثاقب رضاوی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے معاشی سیلف ڈسپلن بہت ضروری ہے، جو کہ ملک کے سیاسی حالات کی وجہ سے نہیں آسکا۔عالمی مالیاتی ادارے کا پروگرام ملک کو ایک گائیڈلائىن دیتا ہے۔اور وہ کام جو ملک کے اپنے معاشی حکام نہیں کر سکے، آئى ایم کے ذریعےان کے ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر چہ پارلیمنٹ کی قرارداد آئینی و قانونی حیثیت نہیں رکھتی ہے لیکن سپریم کورٹ اسے یکسر نظر انداز نہیں کرسکتی ہے۔
خراب معاشی صورتِ حال اور آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدے میں تاخیر کو دیکھتے ہوئے اسحاق ڈار کے اس دورۂ امریکہ کو اہمیت دی جارہی تھی۔
بعض ماہرین کہتے ہیں کہ عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی بظاہر اُن کی ناکامی تھی۔ لیکن اس کے بعد وہ اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور اب مسلم لیگ (ن) کو اپنا سیاسی اثاثہ بچانے کا چیلنج درپیش ہے۔
حکومت کا یہ اقدام سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج، جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی جانب سے رجسٹرار سپریم کورٹ عشرت علی سے فوری طور پر عہدے سے دستبردار ہونے کے مطالبے کے بعد سامنے آیا ہے۔
پاکستان کے وزیرِ مملکت برائے پیٹرولیم و قدرتی وسائل سینیٹر مصدق ملک نے کہا ہے کہ روس سے تیل کی خریداری کے لیے تمام تکنیکی و مالیاتی معاملات طے کر لیے گئے ہیں جس کے بعد رواں ماہ کے آخر تک ماسکو سے پہلا جہاز کراچی پہنچنے کا امکان ہے۔
وزیرِ مملکت برائے پیٹرولیم و قدرتی وسائل سینیٹر مصدق ملک نے کہا ہے کہ روس سے تیل کی خریداری کے لیے تمام معاملات طے پا گئے ہیں۔ سستا پیٹرول اسکیم سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ اس پر آئی ایم ایف کا اعتراض نہیں بنتا اور نہ ہی عالمی مالیاتی ادارے نے اس بارے میں کوئی باضابطہ بات کی ہے۔
پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ قرض پروگرام کی بحالی کے لیے گزشتہ کئی ماہ سے مذاکرات جاری ہیں۔ حال ہی میں آئی ایم ایف نے خطے کے دو دیگر ممالک بنگلہ دیش اور سری لنکا کے لیے پروگراموں کی منظوری کا اعلان کیا ہے۔
فوج پر تنقید کے الزام میں دو سال جیل کاٹنے کے بعد رہائی پانے والے رکنِ قومی اسمبلی علی وزیر کہتے ہیں کہ ہم نظریاتی تنقید کرتے ہیں جس کا بہت اثر بھی ہوتا ہے۔ فوج پر تنقید کرنے والے کچھ لوگوں نے بعد میں معافیاں بھی مانگیں لیکن ہم اپنے بیانیے پر قائم ہیں۔
ریاستی اداروں پر تنقید کے الزام میں دو سال تک جیل میں رہنے کے بعد گزشتہ ماہ عدالت نے علی وزیر کو ضمانت پر رہا کیا تھا۔
مزید لوڈ کریں