بائیڈن نے کہا، " امریکہ شام میں اپنے شراکت داروں اور اسٹیک ہولڈرز کو خطرات سے نمٹنے کے ایک موقع سے فائدہ اٹھانے میں مدد کےلیے ان کے ساتھ مل کر کام کرے گا ۔ لیکن منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ شام کے تنازع سے باہر رہے۔۔"
قومی سلامتی کونسل کے ترجمان نے کہا کہ تینوں شہری جلد ہی امریکہ واپس پہنچ جائیں گے اور کئی سالوں کے بعد ان کا اپنے خاندانوں سے ملاپ ہو گا۔
عالمی سٹیج پر صدر بائیڈن کی یہ غالباً الوداعی موجودگی ہو گی۔ یہیں انہیں اس سوال کا بھی سامنا ہوگا کہ منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس میں واپس آنے کے بعد، جن کا ایجنڈا "امیریکہ فرسٹ" ہے، امریکی پالیسیوں میں کیا ممکنہ تبدیلیاں آئیں گی
ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعےکو مشی گن کے علاقے ڈیئربورن،میں ایک حلال کیفے کا دورہ کیا ہے، جسے امریکہ کا عرب دارالحکومت کہا جاتا ہے، جہاں تقریباً چار لاکھ عرب امریکی آباد ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے بائیڈن انتظامیہ کی اسرائیل کے لیے حمایت پر ہیرس کو سزا دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
بڑے کمیونٹی گروپس کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز، مسلم پبلک افیئرز کونسل سمیت دیگر گروپس کو ان ملاقاتوں میں مدعو نہیں کیا گیا۔ یہ گروپس غزہ جنگ سے متعلق امریکی پالیسی میں تبدیلی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
گزشتہ دس دنوں میں اسرائیل نے لبنان میں فضائی بمباری جاری رکھی ہوئی ہے اور بقول اس کے اس نے حزب اللہ کے 36 سو ٹھکانوں پر بمباری کی ہے۔
زکربرگ نے کہا ہے کہ جس مواد کو سینسر کیا گیا تھا، اس میں طنز اور مزاح بھی شامل تھا، اور جب ہم نے اس سے اتفاق نہیں کیا تو انتظامیہ کے عہدے داروں نے ہماری ٹیموں کے ساتھ شدید برہمی اور مایوسی کا اظہار کیا تھا۔
اسرائیل نے کہا کہ خان یونس کے خلاف یہ کارروائی فلسطینیوں کی جانب سے راکٹ فائرنگ کے جواب میں اور انٹیلی جینس کی ان معلومات کی بنیاد پر کی جارہی ہے کہ وہاں دہشت گردی کا انفرا اسٹرکچر موجود ہے ۔
امریکی حکام نے کہا ہے کہ غزہ جنگ بندی مذاکرات اب آخری مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں اور جتنا جلد ممکن ہو سکے انہیں پایۂ تکمیل تک پہنچایا جانا چاہیے۔
وینس کے حالیہ بیانات زیادہ تر ٹرمپ کے 'امریکہ فرسٹ' نظریے سے مطابقت رکھتے ہیں اور ان کےعالمی نظریے کا ا ظہار بھی جس کا خلاصہ اسرائیل کے حامی اور چین کے مخالف کے طور پر کیا جا سکتا ہے یورپ میں بے چینی کا باعث ہو سکتا ہے۔
اپنی فتح کو یقینی بنانے کے لیے بائیڈن کو سیاہ فاموں کی حمایت درکار ہے۔ انہوں نے افریقی امریکیوں سے متعلق کلیدی مسائل پر اپنی پالیسیوں کا سابق صدر کی پالیسیوں سے تقابل کیا اور ’بلیک جابز‘ کی اصطلاح کا مذاق اڑایا جسے ٹرمپ اکثر استعمال کرتے ہیں۔
دنیا کی سات دولتمند جمہوریتوں کے گروپ یا جی-7 کے اجلاس میں شرکت کے لئے صدر بائیڈن ایک ایسے وقت میں اٹلی میں ہیں جبکہ انہیں نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں ریپبلیکن پارٹی کے متوقع امیدوار ڈانلڈ ٹرمپ سے مقابلہ درپیش ہے، اور وہ ایک ذاتی آزمائش کے مرحلے سے بھی گزر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے حماس کے خاتمے تک فوجی کارروائیاں جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے جب کہ حماس کا کہنا ہے کہ وہ مستقل جنگ بندی اور غزہ سے فوجی انخلا کے اسرائیلی وعدے کے بغیر کسی معاہدے کو قبول نہیں کر سکتی۔
انہوں نے کہا کہ بہت سے نوجوان سیاہ فام رائے دہندگان اپنی اولین ترجیحات میں بائیڈن کی ان کی دانست میں بے عملی کو دیکھتے ہوئے مایوس ہیں۔ اور معیشت اور اسرائیل حماس جنگ سے نمٹنے کے ان کے طریقہ کارسے ناراض ہیں۔
بائیڈن نے جمعے کو اسرائیل کی طرف سے طے کیا گیا جو نیا منصوبہ پیش کیاہے وہ تین مراحل پر مشتمل ہے۔ جس کا آغاز چھ ہفتے کی عارضی جنگ بندی سے ہوگا اور حماس کے ساتھ مزید مستقل جنگ بندی کا باعث بنے گا۔
جنگوں پر زیادہ بات کرنے کے بجائے بائیڈن نے امریکی جمہوریت کو لاحق خطرات کا ذکر کرتے ہوئے اپنے ری پبلکن حریف ڈونلڈ ٹرمپ کا ہدفِ تنقید بنایا۔ صدر بائیڈن نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ جمہوری اداروں کے لیے خطرہ ہیں۔
نیتن یاہو بارہا کہہ چکے ہیں کہ حماس کے خاتمے کے بغیر جنگ کے بعد کی منصوبہ بندی نا ممکن ہے۔ تاہم وزیرِ دفاع یوو گیلنٹ نے جنگ کے خاتمے کے بعد غزہ کے انتظام کے حوالے سے کوئی منصوبہ پیش نہ کرنے پر انہیں رواں ہفتے تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
کیا اسرائیل حماس کے خلاف اپنی جنگ میں امریکی فراہم کردہ ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے انسانی قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہے؟ اس بارے میں امریکی انتظامیہ بدھ کے روز کی ڈیڈ لائن تک اپنی رپورٹ کانگریس کو پیش نہیں کر سکی ۔
جمعرات کو وائٹ ہاؤس سے جاری کردہ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ پیش کیا گیا معاہدہ "غزہ میں فوری اور طویل جنگ بندی کا باعث بنے گا ،جس سے پورے غزہ میں انسانی ہمدردی کی اضافی ضروری امداد کی فراہمی میں آسانی پیدا ہوگی ، اور جو لڑائیوں کے مستند خاتمے کا سبب بنے گا۔"
مزید لوڈ کریں