اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی خاتون ایڈیشنل سیشن جج اور پولیس حکام کو دھمکیاں دینے کے کیس میں عبوری ضمانت میں آٹھ دن کی توسیع کر دی ہے جب کہ کیس کی مزید سماعت 20 ستمبر دن دو بجے تک ملتوی کر دی ہے۔
عدالت میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی پیشی سے قبل سخت سیکیورٹی اقدامات کیے گئے تھے۔ صحافیوں کو اگرچہ ایک روز قبل پولیس حکام کی طرف سے یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ کارڈ رکھنے والےصحافیوں کو کوئی دقت نہیں ہوگی البتہ عدالت کی طرف جانے والے تمام راستوں پر پولیس اہلکاروں نے بحث و مباحثے کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو آگے جانے کی اجازت دی۔
انسدادِ دہشت گردی عدالت کے جج راجہ جواد عباس حسن نے کیس کی سماعت شروع کی تو دوران سماعت تفتیشی افسر نے بتایا کہ عمران خان کیس کی تفتیش میں شامل نہیں ہوئے ، صرف ان کے وکیل نے بیان جمع کرا دیا ہے۔
عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں مقدمے کے اخراج کی درخواست پر نوٹس جاری ہو چکے ہیں۔ پولیس نے ہائی کورٹ کو غلط بتایا کہ عمران خان شامل تفتیش نہ ہوئے۔
عدالت نے کہا کہ تفتیشی افسر فیئر انویسٹی گیشن کرکے پیش رفت سے آگاہ کرے۔
تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کو تفتیش میں شامل ہونے کے تین نوٹس ارسال کیے گئے البتہ ان کا وکیل کے ذریعے ایک بیان آیا تھا، جس پر کہا تھا کہ وہ خود پیش ہوں۔
جج راجہ جواد عباس نے ریمارکس دیے کہ آپ تک بیان پہنچا، جسے آپ نے ریکارڈ کا حصہ ہی نہیں بنایا۔ اس سے تو آپ کی بدنیتی ثابت ہوتی ہے۔
عدالت نے پراسیکیوٹر کو ہدایت کی کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی تشکیل پر عدالت کی رہنمائی کی جائے۔ مقدمے کے اندراج کو کتنے دن ہوئے ہیں اور جے آئی ٹی تاخیر سے کیوں بنی؟ بیان کو ریکارڈ کا حصہ کیوں نہیں بنایا گیا؟ کیا ملزم کا آنا لازمی ہے،ان سے کون سا ہتھیار برآمد کرنا ہے؟
عدالت نے بابر اعوان کو آج دلائل دینے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اس کیس کی وجہ سے دیگر مقدمات زیرِ التوا رکھنے پڑتے ہیں۔
جج نے بابر اعوان کو ہدایت کی کہ ملزم کو لے آئیں تاکہ دلائل مکمل ہو سکیں۔
عدالت نے سماعت میں وقفہ کیا، اس دوران پی ٹی آئی رہنما اسد عمر عدالت پہنچےجب کہ کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو سابق وزیرِ اعظم عمران خان انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہوئے۔
اس موقع پر اسد عمر،اعظم سواتی،فیصل جاوید سمیت دیگر پی ٹی آئی رہنما بھی کمرہٴ عدالت میں موجود تھے۔ اسپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
قبل ازیں جب عمران خان کمرہٴ عدالت کی طرف جا رہے تھے تو ایک بار پھر انہوں نے صحافیوں کے سوالوں پر اپنا پرانا جملہ دہرایا کہ ’’میں بہت خطرناک ہوگیا ہوں۔‘‘
جب ان سے سوال کیا گیا کہ کس کے لیے؟ تو انہوں نے کہا کہ سب کے لیے خطرناک ہو گیا ہوں۔
صحافیوں نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی اور مسلم لیگ (ن) کے قائد کا ذکر کرتے ہوئے استفسار کیا کہ پہلے الطاف حسین پھر نواز شریف اور کیا اب آپ کو مائنس کیا جا رہا ہے؟ جس پر عمران خان نے جواب دیا کہ ’’چور نواز شریف اور دہشت گرد الطاف حسین سے میرا موازنہ نہ کیا جائے۔‘‘
عمران خان جب کمرہٴ عدالت میں پہنچے، تو ان کے ساتھ موجود تحریکِ انصاف کے رہنما ان کے ارد گرد کھڑے تھے جب کہ ان کے وکیل بابر اعوان نے ایک مرتبہ پھر دلائل کا آغاز کیا۔
دورانِ سماعت اسپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ جے آئی ٹی نے تین نوٹس جاری کیے لیکن عمران خان تفتیش کا حصہ نہیں بنے۔
بابر اعوان کا کہنا تھا کہ یہ کہاں لکھا ہے کہ تھانے میں بلایا جائے؟ گزشتہ سماعت میں بھی عدالت میں تفتیشی افسر نے کہا تھا کہ عمران خان پیش نہیں ہوئے البتہ کہیں ایسا نہیں لکھا۔ بیان لکھ کر دیا گیا اس کو ریکارڈ پر ہی نہیں لایا گیا۔
عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ خود بتاتے ہیں کہ کالعدم تنظیمیں پیچھے لگی ہوئی ہیں، اگر عمران خان تھانے جائیں اور کوئی مار دے؟ ان کے مطابق ان کا کیا پتا کہ اپنے بھی دو بندے مروا دیں۔
انہوں نے کہا کہ صبح بھی پیشکش کی تھی کہ یہاں بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ پوچھ لیں کیا سوال پوچھنا ہے۔ ان کے مطابق ناقص تفتیش پر پولیس افسر کو عدالت شوکاز نوٹس جاری کر سکتی ہے۔
بابر اعوان کا کہنا تھا کہ ملزم پولیس کے سامنے اعتراف جرم بھی کر لے تو اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ پھر یہ شامل تفتیش کرنے کے لیے پیش ہونے کی شرط کیوں رکھ رہے ہیں؟۔
عمران خان کے وکیل کے مطابق جے آئی ٹی اور تفتیشی افسر کو دو مرتبہ بیان لکھ کر دیا۔ جب سے یہ پولیس آئی ہے، وکلا کو تھانوں میں جانا پڑ رہا ہے۔ یہ طے کر لیں کہ تفتیش کرنی ہے یا ہراساں کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ عمران خان کے الفاظ سے ڈر گئے۔
انہوں نے کہا کہ ایڈیشنل سیشن جج کو کہا گیا کہ ہم نے تمہارے خلاف ایکشن لینا ہے، ظاہر ہے وہ قانونی کارروائی کا ذکر تھا۔
اس پر جج نے ریمارکس دیے کہ اس پر ہم بات نہیں کریں گے کیوں کہ یہ معاملہ ہائی کورٹ میں زیرِ التوا ہے۔بابر اعوان نے کہا کہ اسی کو ریکارڈ پر لانا تھا کہ آدھی ایف آئی آر تو یہاں ختم ہو گئی۔
بابر اعوان نے عمران خان کی تقریر سے پڑھتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کہا تھا کہ آئی جی اسلام آباد اور ڈی آئی جی تمہیں تو ہم نے نہیں چھوڑنا، تمہارے خلاف تو ہم کیس کریں گے۔ یہاں سے دہشت گردی نکال کر دکھائیں۔
پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ابھی ملزم کے تفتیش میں شامل ہونے کی بات کی جا رہی ہے۔ جے آئی ٹی یا تفتیشی افسر نے ہی طے کرنا ہے کہ تفتیش کا طریقہ کون سا ہوگا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ جہاں تفتیش میں شامل کیا جانا ہے شامل کیا جائے ۔ عدالت اس پر کوئی احکامات یا ہدایات جاری نہیں کر رہی ۔ بار روم میں بیان قلم بند کریں یا جہاں بھی کریں، یہ آپ دونوں پر چھوڑتے ہیں۔
بعد ازاں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے عمران خان کی عبوری ضمانت میں 20 ستمبر دن دو بجے تک توسیع کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔
سماعت ختم ہونے کے بعد عمران خان کمرہٴ عدالت سے نکلے تو ان کے سیکیورٹی اہلکاروں نے انہیں گھیرا اور باہر موجود گاڑی تک لے کر آئے، جہاں عمران خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر حراست میں تشدد کیا جاتا ہے ،جنسی تشدد کیا جاتا ہے، یونیورسٹی پروفیسر کوئی دہشت گرد نہیں کوئی قاتل نہیں، اس پر ہر قسم کا تشدد کیا جاتا ہے اور جیل سپرنٹنڈنٹ تصدیق کرتا ہے کہ تشدد ہوا ہے، اس کو دوبارہ تشدد کرنے والوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ اس پر اگر کوئی کچھ کہے کہ یہ غلط ہے، تو اسے دہشت گردی کہا جاتا ہے۔
عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ پوری دنیا کے اخبارات میں کہا گیا کہ دہشت گردی کا مقدمہ مجھ پر قائم کیا گیا۔ یہ پاکستان کی توہین ہے۔ جنسی تشدد کا معاملہ پیچھے رہ گیا جب کہ دیگر باتیں کی جا رہی ہیں۔
ان کے مطابق دہشت گردی کا جھوٹا کیس بنایا گیا، جو پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی کا باعث بن رہا ہے۔
اس کے بعد عمران خان عدالت سے روانہ ہوئے۔ اب 20 ستمبر کو انہیں ضمانت کنفرم کرانے کے لیے عدالت میں پیش ہونا ہوگا۔