شام میں امریکہ کے ڈرون حملے میں مبینہ طور پر 17 عسکریت پسند ہلاک ہو گئے ہیں۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کی فوج نے عسکریت پسندوں کو ترکی کی سرحد کے قریب شام میں نشانہ بنایا ہے۔
شام کے حوالے سے انسانی حقوق کی تنظیم 'سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' کے مطابق حملے میں پانچ عام شہری بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
امریکہ کی سینٹرل کمانڈ کی ترجمان میجر بیتھ ریرڈن کا کہنا ہے کہ شام میں ادلب کے قریب القاعدہ کے سینئر رہنماؤں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ ایک اجلاس میں مصروف تھے۔
ترجمان کے مطابق القاعدہ کی شام میں موجود قیادت کے خاتمے سے اس کی امریکہ، اس کے اتحادیوں اور عام شہریوں کے خلاف کارروائیوں کی استعداد میں مزید کمی ہو گی۔
البتہ انہوں نے بیان میں یہ واضح نہیں کیا کہ اس ڈرون حملے میں کتنے افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
شام کے حوالے سے برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم 'سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' کا کہنا ہے کہ امریکہ کے شام میں کیے گئے ڈرون حملے میں ایک عشائیے کی تقریب کو نشانہ بنایا گیا جس میں 17 افراد ہلاک ہوئے۔ جن میں عسکریت پسندوں کے 11 رہنما بھی شامل ہیں۔
'اے ایف پی' کے مطابق ڈرون حملہ سلقین کے علاقے میں جکارا نامی گاؤں میں کیا گیا۔ یہ گاؤں شام میں عسکریت پسندوں کا آخری گڑھ قرار دیے جانے والے ادلب میں واقع ہے جہاں ھیئۃ تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کا قبضہ ہے۔
ایچ ٹی ایس تنظیمb کو القاعدہ کے سابقہ جنگجوؤں اور اس سے الگ ہونے والوں نے بنایا ہے۔
اس عسکریت پسند گروہ کے علاوہ القاعدہ کے حلیف گروہ بھی ادلب میں متحرک ہیں جن میں تنظیم حرس الدین (یعنی دین کے محافظ) بھی شامل ہے۔
ڈرون حملے کے حوالے سے 'سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' کے سربراہ رامی عبد الرحمٰن کا کہنا ہے کہ امریکہ کی کارروائی میں پانچ غیر شامی عسکریت پسند بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ البتہ ان افراد کی شہریت کے حوالے سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان افراد کو جکارا گاؤں میں ایک فارم پر عشائیے میں مدعو کیا گیا تھا۔
رامی عبد الرحمٰن نے بتایا کہ اس اجلاس میں 'ھیئۃ تحریر الشام' کے مخالفین کے ساتھ ساتھ روس اور ترکی کے معاہدے کو مسترد کرنے والے جنگجو شریک تھے۔ جب کہ بعض ایسے افراد بھی موجود تھے جو 'تنظیم حرس الدین' کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔
خیال رہے کہ اس علاقے میں 30 لاکھ کے قریب شہری آباد ہیں۔ یہاں رواں برس مارچ میں حکومت مخالف عسکریت پسندوں، جن کو ترکی کی حمایت حاصل ہے اور شام کی حکومت کے حامی مسلح گروہوں، جن کی روس مدد کر رہا ہے، کے درمیان معاہدہ ہوا تھا کہ حکومتی افواج پر حملے نہیں کیے جائیں گے۔
امریکہ کے اتحادی شام کے مشرق میں موجود ہیں۔ جہاں کرد افواج کی مدد کے لیے امریکہ فضائی حملے کرتا رہا ہے۔ کرد فورسز داعش کے باقی بچ جانے والے جنگجوؤں کے خلاف لڑائی میں مصروف ہے۔
'سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' کے مطابق شام کی افواج نے روس کی مدد ملک کے 70 فی صد علاقوں کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا ہے۔
یاد رہے کہ شام میں 2011 میں حکومت مخالف احتجاج کے دوران بڑی تعداد میں شہری ہلاک ہوئے تھے۔ شہریوں کی ہلاکت کے بعد ملک میں خانہ جنگی شروع ہو گئی تھی۔
شام میں گزشتہ نو سال سے جاری جنگ میں تین لاکھ 80 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ لاکھوں افراد جنگ زدہ علاقوں سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔