افغان صدر حامد کرزئی نے یقین دلایا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف تخریبی کارروائیوں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
بدھ کو کابل میں افغان پارلیمان کے ایوان زیریں کے افتتاحی اجلاس سے اپنے خطاب میں اُنھوں نے کہا کہ پاکستان کی مدد کے بغیر خطے میں امن کا قیام ممکن نہیں۔
249 رکنی ولسی جرگے کی تقریب حلف برداری کی سربراہی کرنے سے قبل اپنے خطاب کے دوران اجلاس میں موجود پاکستانی سفارت کار کو مخاطب کر تے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی افغانستان اور پاکستان کی مشترکہ جنگ ہے۔
افغان صدر نے یہ بیان ایسے وقت دیا ہے جب اعلیٰ پاکستانی حکام دعویٰ کر رہے ہیں کہ ملک میں جاری دہشت گردی کی لہر میں استعمال ہونے والے بیشتر اسلحہ اور گولہ بارود کا ذریعہ افغانستان ہے۔
پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے ایک روز قبل اسلام آباد میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ شمال مغربی قبائلی علاقوں کے راستے افغانستان سے شدت پسندوں اور اسلحے کی آمدورفت پر کابل سے تحریری احتجاج بھی کیا جا رہا ہے۔
”ہمیں (اس سلسلے میں افغان حکومت کا) تعاون درکار ہے کیوں کہ جب تک یہ سپلائی بند نہیں ہو گی ملک میں دہشت گردی کو ختم کرنا ہمارے لیے انتہائی مشکل ہے۔“
پاکستان نے اپنی سرحد سے ملحقہ افغان صوبوں میں غیرمعمولی تعداد میں بھارت کے قونصل خانوں کے قیام پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے اور بعض حکام کا ماننا ہے کہ پاکستان کا روایتی حریف ان سفارتی تنصیبات کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے تاہم نئی دہلی ان الزامات کو مسترد کرتا آیا ہے۔
صدر کرزئی نے پارلیمان کے افتتاحی اجلاس سے خطاب میں بھی کہا کہ بھارت نے افغانستان کی تعمیر نو کے سلسلے میں 1.3 ارب ڈالر کی امداد فراہم کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے اور یہ کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو انتہائی اہمیت حاصل ہے۔
تاہم اُنھوں نے ایک مرتبہ پھر واضح کیا کہ افغانستان پاکستان کے ساتھ مضبوط سیاسی و اقتصادی تعاون کا خواہاں ہے کیوں کہ یہ خطے میں پائیدار امن اور استحکام کے لیے ناگزیر ہیں۔
پاکستان نے اپنی سرحد سے ملحقہ افغان صوبوں میں غیرمعمولی تعداد میں بھارت کے قونصل خانوں کے قیام پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے اور بعض حکام کا ماننا ہے کہ پاکستان کا روایتی حریف ان سفارتی تنصیبات کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے تاہم نئی دہلی ان الزامات کو مسترد کرتا آیا ہے۔