افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا ابھی جاری ہی تھا کہ کابل طالبان کے قبضے میں آ گیا اور اس بڑی پیش رفت کے بعد اب افغانستان کا منظر نامہ یکسر بدل چکا ہے۔
امریکہ ہنگامی بنیادوں پر کابل سے سفارتی عملے کو نکال رہا ہے جب کہ افغان صدر اشرف غنی ملک چھوڑ چکے ہیں۔ لیکن یہاں ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ طالبان کی قیادت کون کر رہا ہے، کون کس عہدے پر فائز ہے اور طالبان کا تنظیمی ڈھانچہ کیا ہے؟
طالبان کا قیام
طالبان کا قیام روس کے افغانستان سے انخلا کے بعد عمل میں آیا تھا اور 1996 میں دارالحکومت کابل پر قبضے کے بعد ملا محمد عمر طالبان کے سربراہ کے طور پر سامنے آئے تھے۔
طالبان ملا عمر کو اپنی خود ساختہ ریاست 'اماراتِ اسلامی افغانستان' کے 'امیر المومنین' قرار دیتے تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
طالبان کے سربراہ ہونے کے باوجود ملا عمر کی تصاویر یا ویڈیوز دستیاب نہیں۔ وہ 2001 میں امریکہ کے افغانستان پر حملے کے بعد بھی طالبان کے سربراہ رہے۔
سال 2015 میں ملا عمر کے حوالے سے رپورٹس سامنے آئیں کہ وہ 2013 میں انتقال کر چکے تھے۔ جولائی 2015 میں طالبان نے ملا اختر منصور کو اپنا نیا سربراہ بنا لیا تھا۔
صرف 10 ماہ بعد ہی مئی 2016 میں ملا اختر منصور پاکستان کے صوبے بلوچستان میں امریکہ کے ایک ڈورن حملے میں مارے گئے۔
ملا اختر منصور کے بعد ملا ہیبت اللہ کو طالبان نے اپنی قیادت سونپی۔ ملا ہیبت اللہ طالبان کے عدالتی نظام کے سربراہ تھے جنہیں مغربی میڈیا کی رپورٹس میں طالبان کا چیف جسٹس بھی کہا جاتا تھا۔
طالبان کا تنظیمی ڈھانچہ
طالبان اپنے سربراہ کو 'امیر المومنین' کہتے ہیں۔ طالبان کے امیر کے ماتحت اس وقت تین نائب امرا ہیں جن میں ایک نائب امیر افغانستان کی حکومت سے قطر میں جاری مذاکرات کے عمل اور سیاسی امور کی نگرانی کر رہا ہے۔ ایک نائب امیر کی ذمہ داری جنگی امور کو دیکھنا ہے جب ایک نائب امیر جنگی امور میں معاونت کے ساتھ ساتھ رابطہ کاری پر مامور ہے۔
طالبان کے فیصلوں کے حوالے سے حتمی اختیار امیر کے پاس ہوتا ہے۔ البتہ وہ اپنے بیش تر فیصلے مشاورت سے کرتے ہیں۔ اس مشاورتی عمل کے لیے امیر کے ماتحت ایک شوریٰ ہے جسے 'رہبری شوریٰ' کا نام دیا گیا ہے۔
میڈیا رپورٹس میں طالبان کے اس مشاورتی فورم کو 'کوئٹہ شوریٰ' کا نام بھی دیا جاتا ہے جب کہ پہلے 'پشاور شوریٰ' اور 'میران شاہ شوریٰ' کے نام بھی سامنے آتے رہے ہیں۔
یہ تمام علاقے پاکستان میں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان علاقوں میں چوں کہ طالبان کے رہنما مقیم تھے، اس لیے علاقوں کے نام پر شوریٰ کے نام رکھے گئے تھے۔ البتہ پاکستان ہمیشہ اپنی حدود میں طالبان قیادت کی موجودگی کی تردید کرتا رہا ہے۔
طالبان کی 'کوئٹہ شوریٰ' کے ارکان کی اس وقت تعداد 25 کے قریب ہے جن میں طالبان دور کے سابق وزرا، جنگی کمانڈر، سیاسی مشیر اور جید علما شامل ہیں۔
طالبان کے انتظامی کمیشن
شوریٰ کے بعد طالبان کے قائم کردہ کمیشن آتے ہیں جسے طالبان کی کابینہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس میں فوجی، سیاسی، مالی امور سمیت دیگر معاملات کے نگران یا وزرا شامل ہوتے ہیں۔ بعض رپورٹس کے مطابق طالبان نے مختلف امور کے لیے لگ بھگ 13 کمیشن بنائے ہوئے ہیں۔
اس طرح کمیشن کے بعد صوبوں میں مقرر کیے گئے گورنرز اور اضلاع میں تعینات فیلڈ کمانڈرز ہوتے ہیں جو طالبان کے زیرِ انتظام علاقوں کے امور یا جنگی معاملات دیکھتے ہیں اور اس کی رپورٹ کمیشن، شوریٰ اور پھر نائب امرا اور طالبان کے امیر تک جاتی ہے۔
فیلڈ کمانڈرز کا تقرر بنیادی طور پر طالبان کے عسکری کمیشن کا کام ہے۔
ملا ہیبت اللہ: طالبان کے سابق چیف جسٹس اور موجودہ سربراہ
ملا ہیبت اللہ کو طالبان کی قیادت 2016 میں دی گئی تھی۔ برطانوی خبر رساں ادارے 'بی بی سی' کی ایک رپورٹ کے مطابق ان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ 80 کی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف ہونے والی مزاحمت کا حصہ بنے تھے۔ البتہ ان کا تشخص ایک جنگی رہنما کے مقابلے میں مذہبی رہنما کے طور پر زیادہ ابھر کر سامنے آیا۔
ملا ہیبت اللہ کا تعلق پختون قبیلے نور زئی سے ہے۔ ان کی عمر 60 برس کے قریب ہے۔
ملا ہیبت اللہ کے امیر بننے کے بعد امریکہ کی وزارتِ خارجہ نے کہا تھا کہ ان کا نام دہشت گردوں کی کسی بھی فہرست میں شامل نہیں۔
البتہ بھارت کے اقوامِ متحدہ میں مستقل مندوب نے مطالبہ کیا تھا کہ ان کا نام پابندیوں کی فہرست میں شامل کیا جانا چاہیے۔
طالبان کے موجودہ امیر کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں اپنی بیشتر زندگی افغانستان میں ہی بسر کی ہے۔ البتہ پاکستان کے شہر کوئٹہ میں وہ ایک مدرسے کے منتظم بھی رہے ہیں۔
نوے کی دہائی میں طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد وہ کئی صوبوں میں عدالتوں کے سربراہ رہے تھے۔ بعد ازاں انہیں طالبان کی سپریم کورٹ کا نائب سربراہ اور پھر سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔
امریکہ نے جب 2001 میں افغانستان پر حملہ کیا اور طالبان کی حکومت ختم ہوئی تو ملا ہیبت اللہ کو طالبان کے مذہبی رہنماؤں کی کونسل کا سربراہ بنا دیا گیا تھا۔ یہ طالبان کی انتہائی اہم کونسل ہے جس کی قیادت کرتے ہوئے انہوں نے کئی فتوے بھی جاری کیے۔
ملا ہیبت اللہ کی قیادت میں ہی ان کے نامزد کردہ طالبان رہنماؤں کے وفود مختلف ممالک کے دورے کر رہے ہیں جہاں وہ طالبان کے افغانستان پر کنٹرول کے حصول کے بعد سفارتی سطح پر میدان ہموار کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
طالبان کے بانی اور سیاسی امور کے نگران: نائب امیر ملا عبد الغنی برادر
ملا عبد الغنی برادر طالبان کے بانیان میں سے ہیں۔ وہ ان چند درجن نوجوانوں کے گروہ کا حصہ تھے جنہوں نے ملا عمر کی قیادت میں مسلح جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔
انہوں نے روس کے خلاف مسلح جدوجہد میں بھی حصہ لیا تھا۔ اس وقت امریکہ کا خفیہ ادارہ سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) روس کے خلاف لڑنے والوں کی مدد کر رہا تھا۔
ملا عبد الغنی برادر افغان صوبے ارزگان میں پیدا ہوئے تھے۔ تاہم ان کی زندگی کا ایک بڑا حصہ طالبان کے مرکز قندھار میں گزرا ہے۔
’افغان انالسٹ نیٹ ورک‘ کے مطابق ملا عبد الغنی برادر ایک ماہر جنگجو کمانڈر ہیں۔ ان کا تعلق افغانستان کے بااثر قبیلے پوپلزئی سے ہے۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی کا تعلق بھی اسی قبیلے سے ہے۔
ملا محمد عمر کی طرح ملا عبدالغنی برادر نے بھی کسی مدرسے یا تعلیمی ادارے سے تعلیم مکمل نہیں کی۔
نوے کی دہائی میں جب افغانستان سے روس کا انخلا مکمل ہوا تو ملا عبدالغنی برادر اور ملا عمر قندھار کے ایک گاؤں میوند میں مقیم رہے۔
پھر جب 1994 میں ملا عمر نے افغانستان میں جدوجہد شروع کی تو ملا عبد الغنی برادر بھی ان کے ساتھ تھے۔
تحریک طالبان افغانستان کا قیام قندھار کے سرحدی علاقے میوند کے ایک مدرسے میں ہوا تھا۔ یہ مدرسہ ملا عمر اور ملا غنی برادر نے مشترکہ طور پر قائم کیا تھا۔
طالبان نے 1996 میں جب کابل پر قبضہ کیا تو ملا عبد الغنی برادر کو ہرات صوبے کا گورنر بنایا گیا تھا۔ وہ طالبان کے دورِ حکومت میں وزیرِ دفاع ملا عبید اللہ کے لیے بعض اوقات نائب وزیر کی خدمات بھی انجام دیتے تھے۔
'بی بی سی' کی رپورٹ کے مطابق طالبان 1998 میں افغانستان کے صوبہ بامیان پر قابض ہوئے تھے۔ بامیان پر حملہ کرنے کے لیے طالبان کی قیادت ملا عبد الغنی برادر نے کی تھی۔
جب امریکہ نے اتحادی افواج کے ساتھ 2001 میں افغانستان پر حملہ کیا تھا تو کہا جاتا ہے اس وقت طالبان کے لیے جنگی حکمتِ عملی ملا عبد الغنی برادر نے ترتیب دی تھی۔
امریکہ کی 'جارج واشنگٹن یونیورسٹی' کی ویب سائٹ پر موجود امریکہ کی خفیہ دستاویزات میں، جنہیں ڈی کلاسیفائی کیا جا چکا ہے، ملا عبد الغنی برادر پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات بھی لگائے گئے ہیں۔
ملا عبد الغنی برادر پاکستان میں زیرِ حراست بھی رہے۔ انہیں فروری 2010 میں کراچی سے پاکستان کے خفیہ اداروں نے حراست میں لیا تھا۔ کئی روز تک حراست میں رکھنے کے بعد ان کی گرفتاری کا اعلان کیا گیا تھا۔
امریکی اخبار ’دی نیو یارک ٹائمز‘ کی رپورٹ کے مطابق ملا برادر سے دورانِ حراست امریکہ اور پاکستان کے خفیہ اداروں کے اہلکار تفتیش کرتے رہے۔
امریکہ کے افغانستان پر حملے کے بعد ملا عبد الغنی برادر طالبان کے سب سے اہم رہنما تھے جن کی گرفتاری عمل میں آئی تھی۔ ان کی گرفتاری کو امریکہ نے اہم پیش رفت قرار دیا تھا مگر افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے اس پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔
ملا برادر کو پاکستان کے اداروں نے آٹھ سال تک قید میں رکھنے کے بعد اکتوبر 2018 میں رہا کیا تھا۔ رپورٹس کے مطابق ان کی رہائی افغانستان کی حکومت اور قطر کی درخواست پر کی گئی تھی جہاں طالبان کا سیاسی دفتر قائم کیا گیا تھا تاکہ امریکہ سے مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھایا جا سکے۔
ان کی رہائی کے تین ماہ بعد جنوری 2019 میں طالبان نے انہیں ملا ہیبت اللہ کا سیاسی مشیر مقرر کرنے کے ساتھ ساتھ قطر میں سیاسی دفتر کا سربراہ بنانے کا اعلان کیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
یہی وہ وقت تھا جب وہ پاکستان سے قطر منتقل ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ ملا عبد الغنی برادر نے جیل سے رہائی کے بعد کئی ماہ تک پاکستان میں اپنا علاج کرایا تھا کیوں کہ وہ مختلف امراض کا شکار ہو چکے تھے۔
افغان امن عمل کے سلسلے میں اکتوبر 2019 میں ملا عبد الغنی برادر 12 رکنی وفد کی قیادت کرتے ہوئے دوبارہ پاکستان آئے تھے جہاں انہوں نے لگ بھگ آٹھ برس قید میں گزارے تھے۔
اسلام آباد آمد پر طالبان وفد کا استقبال پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ ساتھ ملک کے اہم ترین خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ نے کیا تھا۔
بعد ازاں فروری 2020 میں امریکہ سے ہونے والے امن معاہدے پر بھی ملا عبد الغنی برادر نے ہی دستخط کیے تھے۔
حالیہ دنوں میں ملا عبد الغنی برادر کی سربراہی میں طالبان کے وفود نے کئی ممالک کے دورے کیے ہیں تاکہ طالبان کے دیگر ممالک سے تعلقات کو استوار کیا جا سکے۔
عسکری کمانڈر کا جنگجو بیٹا: نائب امیر سراج الدین حقانی
سراج الدین حقانی طالبان کے امیر المومنین ملا ہیبت اللہ کے پہلے نائب ہیں۔ وہ جلال الدین حقانی کے بیٹے ہیں۔
جلال الدین حقانی افغانستان کے مجاہدین رہنماؤں میں سے وہ پہلے رہنما تھے جنہوں نے روس کے انخلا کے بعد افغانستان میں سب سے پہلے 1991 میں کسی مرکزی شہر پر قبضہ کیا تھا۔ یہ صوبہ خوست کا دارالحکومت خوست تھا جو پاکستان کے سرحدی علاقے وزیرستان سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔
جلال الدین حقانی 95-1994 میں طالبان کا حصہ بنے تھے۔ ان کے ماتحت جنگجوؤں کے گروہ کو ’حقانی نیٹ ورک‘ کا نام دیا جاتا تھا۔
حقانی نیٹ ورک کو طالبان کا اہم ترین جز قرار دیا جاتا ہے جب کہ اس کے شدت پسند تنظیم القاعدہ سے بھی قریبی روابط ہیں۔
ستمبر 2018 میں جلال الدین حقانی کی موت کے بعد سے ان کے بیٹے سراج الدین حقانی اس نیٹ ورک کی قیادت کر رہے ہیں جب کہ 2016 سے وہ ملا ہیبت اللہ کے نائب امیر کے طور پر طالبان کی عسکری کارروائیوں کے بھی نگران ہیں۔
سراج الدین حقانی نے 2020 میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہونے سے قبل امریکہ کے اخبار 'نیو یارک ٹائمز' میں ایک مضمون لکھا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ وہ مسلسل جنگ سے بے زار ہو چکے ہیں۔
سراج الدین حقانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے طالبان کی جنگی حکمتِ عملی میں کئی تبدیلیاں کی ہیں جس میں سب سے اہم عراق میں ہونے والی شدت پسندوں کی کارروائیوں کی طرز پر خود کش حملے کرنا بھی شامل ہیں۔
سراج الدین حقانی پر کئی ہلاکت خیز حملوں کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں جن میں سب سے اہم وردک میں ٹرک میں بارود بھر کر امریکہ کی فوج پر کیا جانے والا حملہ شامل ہے۔ امریکہ کی تحقیقاتی ایجنسی فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) کے مطابق سراج الدین حقانی کی گرفتاری پر 50 لاکھ ڈالرز کا انعام مقرر ہے۔
پاکستان کے اداروں پر بھی حقانی نیٹ ورک سے تعلقات کا الزام لگایا جاتا ہے البتہ اسلام آباد ان الزامات کی تردید کرتا آیا ہے۔
واضح رہے کہ سراج الدین حقانی کا نام اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کی فہرست میں بھی شامل ہے۔
ملا عمر کے صاحب زادے: نائب امیر ملا یعقوب
ملا محمد یعقوب کے نام سے چھ برس پہلے تک کوئی بھی واقف نہیں تھا اور نہ ہی طالبان کی صفوں میں ان کے پاس کوئی عہدہ تھا۔ البتہ 2015 میں جب یہ رپورٹس سامنے آئیں کہ ملا محمد عمر کا انتقال دو برس قبل یعنی 2013 میں ہو چکا ہے تو طالبان میں اتحاد برقرار رکھنے اور اس بات کی یقین دہانی کرانے کے لیے کہ ملا عمر کی موت طبعی تھی، ان کے سب سے بڑے بیٹے ملا یعقوب کا بیان سامنے آیا تھا۔ اس وقت ان کی عمر 27 برس تھی۔
بعد ازاں ملا یعقوب کو طالبان کی صفوں میں جگہ ملتی گئی اور وہ اہم رہنماؤں میں شمار ہونے لگے۔
ملا یعقوب طالبان کی رہبری شوریٰ کے رکن بھی رہے اور انہیں افغانستان کے 34 میں سے 15 صوبوں کے فوجی کمیشن کا سربراہ بھی مقرر کیا گیا تھا۔
ملا اختر منصور کی موت کے بعد جب ملا ہیبت اللہ نے طالبان کی کمان سنبھالی تو انہوں نے ملا یعقوب کو اپنا نائب امیر مقرر کیا تھا۔
فروری 2020 میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے تین ماہ بعد ملا ہیبت اللہ نے طالبان کی قیادت میں تبدیلیاں کرتے ہوئے ملا یعقوب کو طالبان کے ملٹری کمیشن کا سربراہ مقرر کیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
گزشتہ برس یہ رپورٹس بھی سامنے آئی تھیں کہ طالبان تیزی سے اپنے مالی نظام اور استعداد کو بہتر کر رہے ہیں جب کہ اس سب کی نگرانی بھی ملا یعقوب کر رہے ہیں۔
مولوی عبد الحکیم: طالبان کے چیف جسٹس اور اعلیٰ مذاکرات کار
مولوی عبد الحکیم کو طالبان کے امیر مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ کا قابل اعتماد ساتھی سمجھا جاتا ہے۔ وہ غیر ملکی افواج کی افغانستان میں موجودگی کے دوران طالبان کے زیرِ اثر علاقوں میں قائم خود ساختہ عدالتی نظام کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا رپورٹس میں انہیں طالبان کا چیف جسٹس بھی کہا جاتا ہے۔
ان کی تقرری سے قبل طالبان کے موجودہ سربراہ ملا ہیبت اللہ طالبان کے عدالتی نظام کے سربراہ تھے۔ البتہ ان کے امیر بننے کے بعد ان کا اس عہدے پر تقرر کیا گیا۔
افغانستان میں 1996 میں طالبان کی حکومت کے قیام سے قبل وہ قندھار میں ایک مسجد کے امام تھے۔ طالبان نے ان کا اعلیٰ ترین جج کے طور پر تقرر پانچ برس قبل کیا تھا۔ اسی وجہ سے طالبان انہیں ’شیخ عبد الحکیم‘ بھی پکارتے ہیں۔
مولوی عبد الحکیم کا پورا نام عبد الحکیم حقانی اور تعلق اسحٰق زئی قبیلے سے ہے۔ وہ اپنے نام کے ساتھ حقانی اس لیے لگاتے ہیں کیوں کہ انہوں نے پاکستان میں مدرسے دارالعلوم حقانیہ سے تعلیم حاصل کی ہے۔
مولوی عبد الحکیم کو افغانستان میں طالبان کی کارروائیوں پر فتوؤں کے اجرا کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے جب کہ وہ ایک سخت گیر طالبان رہنما تصور کیے جاتے ہیں۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ طالبان کی اکثریت واضح طور پر ہر کارروائی یا اقدام کی مذہب سے تاویل چاہتے ہیں۔ اس لیے مولوی عبد الحکیم کو بین الافغان مذاکرات کے لیے سربراہ بھی مقرر کیا گیا تھا۔
افغانستان کے خفیہ اداروں کے حکام کا مؤقف ہے کہ طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ ملا عبد الحکیم پر بہت زیادہ اعتماد کرتے ہیں۔
شیر محمد عباس استنکزئی: امریکہ سے مذاکرات کرنے والے رہنما اور تربیت یافتہ جنگجو
امریکہ اور طالبان کے درمیان فروری 2020 میں ہونے والے امن معاہدے میں طالبان کے نائب امیر ملا عبد الغنی برادر کے ساتھ شیر محمد عباس استنکزئی نے اہم ترین کردار ادا کیا تھا۔
طالبان کے مطابق شیر محمد عباس استنکزئی صوبہ لوگر میں ضلع برک کے رہائشی ہیں۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم مقامی مدرسے اور اسکول سے مکمل کی تھی۔ بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کے لیے کابل کے ایک فوجی اسکول آ گئے تھے۔
امریکہ کے اخبار ’دی واشنگٹن پوسٹ‘ کے مطابق سویت یونین کے خلاف جنگ میں شامل ہونے سے قبل شیر محمد عباس استنکزئی نے 80 کی دہائی میں بھارت کی ریاست اتراکھنڈ میں دہرادون میں ملٹری اکیڈمی سے فوجی تربیت حاصل کی تھی۔
واضح رہے کہ طالبان کے بیشتر کمانڈروں نے باقاعدہ کسی فوجی اکیڈمی میں تربیت حاصل نہیں کی۔ البتہ شیر محمد عباس استنک زئی تربیت یافتہ جنگجو قرار دیے جا سکتے ہیں۔
طالبان کے دورِ حکومت میں وہ وزیرِ خارجہ کے معاون اور وزارتِ صحت میں خدمات انجام دے چکے تھے۔ انگریزی پر عبور کی وجہ سے انہیں ذرائع ابلاغ کو انٹرویوز یا پھر غیر ملکی وفود سے ملاقاتوں کی ذمہ داری بھی دی جاتی تھی۔
اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ کے مطابق 1996 میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد انہوں امریکہ کا دورہ بھی کیا تھا۔ وزارتِ خارجہ کے نائب کی حیثیت سے اس وقت کے امریکہ کے صدر بل کلنٹن کی انتظامیہ کے کئی حکام سے ملاقاتیں بھی کی تھیں۔
بعض مبصرین شیر محمد عباس استنکزئی کو پاکستان کا آدمی بھی قرار دیتے ہیں۔
البتہ انہوں نے ’انڈیپنڈنٹ اردو‘ کو دیے گئے ایک ویڈیو انٹرویو میں کہا تھا کہ کابل میں موجود انتظامیہ طالبان پر الزام لگاتی ہے کہ انہیں پاکستان کی حمایت حاصل ہے جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد نے گزشتہ دو دہائیوں میں طالبان کے سیکڑوں افراد گرفتار کیے جن میں سے بیش تر اب بھی پاکستان کی جیلوں میں مقید ہیں۔
امریکہ کے ساتھ فروری 2020 کے معاہدے سے قبل ملا عبد الغنی برادر اور شیر محمد عباس استنکزئی اہم ترین مذاکرات کار تھے۔
ستمبر 2020 میں بین الافغان مذاکرات کا اعلان ہوا تو افغان حکومت سے بات چیت کے لیے طالبان نے ملا عبد الحکیم کو اعلیٰ مذاکرات کار مقرر کیا۔ جب کہ شیر محمد عباس استنکزئی کو ان کے نائب کی ذمہ داری دی گئی۔
طالبان نے بین الافغان مذاکرات کے لیے مجموعی طور پر 21 رکنی ٹیم کا اعلان کیا تھا۔ البتہ ان مذاکرات میں گزشتہ ایک سال کے دوران کسی بھی قسم کی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔
قیدیوں کے تبادلے میں گوانتاناموبے سے رہا ہونے والے پانچ کمانڈر
امریکہ نے افغانستان پر 2001 میں حملے کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں گرفتار ہونے والے مبینہ خطرناک عسکریت پسندوں کو 2002 کے بعد سے کیوبا کے ساحل پر موجود گوانتاناموبے میں قائم قید خانے میں رکھا تھا۔
گوانتاناموبے میں امریکہ کا سب سے قدیم بیرون ملک فوجی اڈا ہے۔ اس قید خانے میں 35 ممالک کے 780 قیدی لائے گئے تھے جن میں افغانستان سے گرفتار ہونے والے طالبان بھی شامل تھے۔
ان میں افغانستان میں طالبان کی حکومت میں وزیرِ داخلہ رہنے والے ملا خیر اللہ خیر خواہ، طالبان کے ڈپٹی چیف آف اسٹاف محمد فاضل مظلوم، صوبائی گورنر نور اللہ نوری، طالبان کی انٹیلی جنس کے نائب وزیر ملا عبد الحق واثق اور طالبان کی حکومت میں سرحدی فوج کے کمانڈر مولوی محمد نبی نوری بھی شامل تھے۔
ان پانچوں کو 2002 میں مختلف مواقع پر افغانستان میں گرفتار کیا گیا تھا۔ بعد ازاں انہیں گونتاناموبے جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
طالبان نے 2009 میں امریکی فوجی بو برگڈال کو اس وقت حراست میں لیا تھا جب وہ مبینہ طور پر اپنی چوکی چھوڑ کر فرار ہو گئے تھے۔ ان کی تلاش کے آپریشن میں ہلاکتیں بھی ہوئی تھیں۔ طالبان نے برگڈال کی رہائی کے بدلے گوانتاناموبے میں قید اپنے پانچ اہم رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
سال 2014 میں قیدیوں کے تبادلے میں امریکہ نے طالبان کے پانچ اہم رہنماؤں کو رہا کیا جو کہ قطر میں واقع سیاسی دفتر پہنچے جب کہ طالبان نے امریکہ کے فوجی اہلکار کو رہا کیا۔
ان پانچ طالبان رہنماؤں کو، جو 13 برس سے زائد گوانتاناموبے کی جیل میں قید رہے ہیں، بین الافغان مذاکرات میں طالبان کی 21 رکنی ٹیم میں بھی شامل کیا گیا تھا۔