سال 2010 : کراچی پرتشدد واقعات کی لپیٹ میں رہا

سال 2010 : کراچی پرتشدد واقعات کی لپیٹ میں رہا

انسانی حقوق کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں تشدد کے واقعات میں گذشتہ سال کے مقابلے میں بہت اضافہ ہوا۔ سیاسی لسانی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر اس سال 711 افراد قتل ہوئے جن میں اکثریت یعنی 283 عام شہری تھے جو شہر میں پرتشدد واقعات کی نظر ہوگئے۔ ایوانِ صنعت و تجارت کراچی کے صدر محمد سعید شفیق نے وائس آف امریکا کو بتایا ہے کہ 2010ء میں کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور مختلف وجوہات کے باعث سماجی و معاشی زندگی معطل رہنے کی وجہ سے پورے ملک کو یومیہ تین سے چار ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔

ہر نئے سال کا آغاز اس ا مید کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ گزرے سال کی پریشانیاں اور مشکلات نئے سال درپیش نہ رہیں اور نیا سال نئی اور مثبت تبدیلیوں کا پیغام لے کر آئے لیکن پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور اہم اقتصادی مرکز کراچی سال 2010 ء کی ابتداء سے ہی مصائب کے ساتھ سماجی و معاشی مشکلات سے بھرپور رہا۔

سال 2009 ء کی طرح 2010 ء میں بھی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کا تسلسل رہا اور انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے مرتب کردہ اعدادو شمار کے مطابق سال کے پہلے ہی مہینے میں مختلف سیاسی لسانی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر قتل کے مختلف واقعات میں تقریباً 63 افراد اپنی جان کھو بیٹھے جن میں 37 عام شہری تھے۔اسی ماہ کی آٹھ تاریخ کو بلدیہ ٹاوٴن میں ایک گھر میں بارودی مواد کے دھماکے سے آٹھ مشتبہ افراد ہلاک ہوئے۔

سال 2010 : کراچی پرتشدد واقعات کی لپیٹ میں رہا

فروری کی پانچ تاریخ کو شہر میں حضرت امام حسین کے چہلم کے موقع پر دو خودکش حملے ہوئے جس میں کم سے کم 25 افراد ہلاک اور سو سے زائد زخمی ہوئے۔پہلا حملہ شاہراہِ فیصل پر شیعہ زائرین کو لے جانے والی بس میں ہوا اور دوسراکچھ ہی دیر بعد جناح ہسپتال میں ہوا۔ جبکہ جناح ہسپتال میں ہی رکھے گئے تیسرے بم کو بم ڈسپوزل اسکواڈ نے ناکارہ بنادیا۔ انسانی حقوق کمیشن کے اعدادو شمار کے مطابق مارچ 2010 ء میں 14 افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے ۔ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات سال کے گیارہ ابتدائی مہینوں کے مقابلے میں مارچ میں سب سے کم رہے۔


سال 2010 : کراچی پرتشدد واقعات کی لپیٹ میں رہا

اپریل کا مہینہ پاکستان کی فیشن صنعت کے لیے نہایت کامیاب رہا اور دہشت گردی کے خطرات کے باوجود دو سال کے وقفہ کے بعد چار روزہ پاکستان فیشن ویک کا کراچی میں کامیابی سے انعقاد ہوا جس میں پاکستان کے معروف ڈیزائنرز اور ماڈلز نے حصہ لیا۔ اس ماہ بھی شہر میں جاری ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ رک نہ سکا اور تقریباً 33 افراد مختلف واقعات میں گولیوں کا نشانہ بنے۔ اسی ماہ ضلع سانگھڑ کے گوٹھ عیسیٰ محمد خاص خیلی کا 70 سالہ ولی داد زمیندار وریام فقیر کے ناجائز قبضہ کے خلاف کراچی پریس کلب کے باہر 20 روز کی بھوک ہڑتال کے بعد زندگی کی بازی ہار بیٹھا۔

مئی ،جون اور جولائی میں 179 افراد قتل ہوئے جن میں 104 افراد عام شہری تھے جبکہ 75 کا تعلق سیاسی، مذہبی و لسانی جماعتوں سے تھا۔ کمیشن کے مطابق سب زیادہ قتل کے واقعات جولائی میں پیش آئے۔ تاہم جون میں بحیرہ عرب میں اٹھنے والے سمندری طوفان فیٹ کے باعث کراچی میں بارشوں سے سات افراد ہلاک ہوئے۔ 28 جولائی کو کراچی سے 152 مسافروں کو لے کر نجی ایر لائن اےئر بلو کا طیارہ اسلام آبادجاتے ہوئے حادثے کا شکار ہوا جس میں کوئی مسافر زندہ نہ بچ سکا۔


سال 2010 : کراچی پرتشدد واقعات کی لپیٹ میں رہا

شہرِ قائد میں اگست کا مہینہ بھی ہولناک رہا۔ دو اگست کو مرکز اور صوبے میں حکومت کی اہم اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے رکن ِ صوبائی اسمبلی کو کراچی میں اپنے محافظ سمیت قتل کردیا گیا جس کے بعد چار روز تک شہر میں قتل و غارت گری کا بازار گرم رہا ۔ اگرچہ انسانی حقوق کمیشن کے اعدادو شمار کے مطابق مرنے والوں کی تعداد 46 رہی تاہم مقامی ذرائع ابلاغ 90 سے زائد ہلاکتیں بتاتے رہے۔اس دوران شہر میں اقتصادی و سماجی سرگرمیاں معطل رہیں۔دوسری جانب پاکستان میں 29 جولائی کوآنے تاریخ کے بدترین سیلاب کے باعث اگست کے مہینے میں سندھ کے سیلاب متاثرین کے لیے تقریباً سات بڑے کیمپ قائم کیے گئے اور ایک لاکھ کے قریب متاثرہ افراد نے اندرونِ سندھ سے کراچی کا رخ کیا۔ان میں بیشتر اب گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔

کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ ستمبر اور اکتو بر میں بھی رک نہ سکا ۔انسانی حقوق کمیشن کے مطابق ان دو ماہ میں 103 افراد قتل ہوئے جن میں 52 عام شہری تھے۔یکم اکتوبر کو کراچی سے نیٹو کے لیے تیل لے جانے والے 27 ٹینکرز کو شکار پور سپر ہائی وے کے قریب مسلح افراد نے نذرِ آتش کردیا گیا۔اسی تاریخ کو سابق صدر پرویز مشرف کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کا کراچی کے وائی ایم سی اے گراوٴنڈ میں افتتاح کا اعلان ہوا۔ سات اکتوبر کو معروف صوفی بزرگ حضرت عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر دو خودکش حملوں میں 17 افراد جاں بحق اور 72 زخمی ہوئے۔

سال 2010 : کراچی پرتشدد واقعات کی لپیٹ میں رہا

پانچ نومبر کو اطالوی آئل کمپنی ای این آئی کے چارٹر طیارے کے حادثے میں تمام 21 افراد ہلاک ہوگئے جبکہ 27 نومبر کو روسی کارگو طیارہ گر کر تباہ ہوگیا جس سے طیارے میں سوار آٹھ افراد سمیت زمین پر موجود کم از کم تین افراد ہلاک ہوگئے۔ یہ دونوں طیارے کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے پرواز کے کچھ دیر بعد ہی آرمی کے خالی میدان اور آبادی کے قریب گرے۔11 نومبر کو کراچی کے حساس علاقے میں واقع پولیس کے تفتیشی مرکز سی آئی ڈی کی عمارت پر خودکش حملے میں 20کے قریب افراد ہلاک اور سو سے زائد زخمی ہوئے جبکہ عمارت ملبے کا ڈھیر بن گئی ۔

اکیس نومبر کو کراچی کی بندرگاہ پر ترکی سے آنے والے رینٹل پاور پلانٹ کا افتتاح کیا گیا تاہم شہری حسبِ معمول لوڈ شیڈنگ کے عذاب کو سارا سال جھیلتے رہے ۔دوسری طرف اسی ماہ کراچی آرٹس کونسل میں یوتھ فیسٹیول کا کامیاب انعقاد ہوا جبکہ دسمبر میں تیسری چار روزہ عالمی اردو کانفرنس منعقد کی گئی جس میں بھارت بنگلہ دیش سمیت دنیا بھر سے آئے اسکالرز نے شرکت کی اور چار دسمبر کو پورے صوبے میں سندھی ٹوپی اور اجرک کا دن منایا گیا۔

سال 2010 : کراچی پرتشدد واقعات کی لپیٹ میں رہا

انسانی حقوق کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں تشدد کے واقعات میں گذشتہ سال کے مقابلے میں بہت اضافہ ہوا۔ سیاسی لسانی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر اس سال 711 افراد قتل ہوئے جن میں اکثریت یعنی 283 عام شہری تھے جو شہر میں پرتشدد واقعات کی نظر ہوگئے۔

ایوانِ صنعت و تجارت کراچی کے صدر محمد سعید شفیق نے وائس آف امریکا کو بتایا ہے کہ 2010ء میں کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور مختلف وجوہات کے باعث سماجی و معاشی زندگی معطل رہنے کی وجہ سے پورے ملک کو یومیہ تین سے چار ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔

کراچی کی تین اہم سیاسی جماعتوں پی پی پی ، ایم کیو ایم اور اے این پی کے درمیان گرما گرمی سال بھر جاری رہی اور وہ ان واقعات کے لیے ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہراتی رہی ہیں۔

سال 2010 : کراچی پرتشدد واقعات کی لپیٹ میں رہا

شہرمیں قتل و غارت گری اور پیپلز پارٹی کے وزراء کی جانب سے ایم کیو ایم کے خلاف بیانات کے بعد پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت صوبے میں کئی بار مشکلات کا شکار نظر آئی تاہم وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کی ہر بار کراچی آمد اور یقین دہانیوں کے بعدبظاہر معاملات ہر بار سنبھلتے نظر آئے۔ دسمبر میں صوبائی وزیرداخلہ کے ایم کیو ایم مخالف بیان کے بعد مخلوط حکومت میں ایک بار پھر دراڑ دکھائی دی تاہم پیر کو صدر زرداری سے ایم کیو ایم کے وفد کی ملاقات کے بعد سال 2010 ء کے اختتام تک صوبہ سندھ میں کسی سیاسی تبدیلی کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔