سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی میں چوٹی کے ریپبلیکن، ریاست انڈیانا کے سینیٹر رچرڈ لوگر نے لیبیا میں جنگی کارروائیاں شروع کرنے سے پہلے ، کانگریس کی رضامندی حاصل نہ کرنے پر صدر اوباما پر تنقید کی۔
انھوں نے کہاکہ ”صدر کو لیبیا میں جنگ شروع کرنے کا اختیار حاصل کرنے کے لیے کانگریس کے پاس جانا چاہیے تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ کانگریس اور امریکی عوام کو اس معاملے میں بحث سے اب بھی فائدہ ہو گا۔“
اس قسم کی بحث نہ ہونے پر، لوگر کے پاس لیبیا کی جنگ میں امریکہ کی شرکت کے بارے میں سوالات کی ایک طویل فہرست تھی۔
انھوں نے پوچھا ”کیا نیٹو کے دوسرے ممالک غیر معینہ عرصے کے لیے لیبیا میں جنگ کا مشن پورا کر سکتے ہیں؟ اگر اتحادی ملکوں نے امریکہ سے فوجی شرکت میں اضافے کی درخواست کی تو انتظامیہ کا جواب کیا ہوگا؟ لیبیا کی حزب اختلاف کو اقتصادی اور فوجی امداد کے لیے انتظامیہ کے منصوبے کیا ہیں، اور جن لوگوں کو ہم مدد دے رہے ہیں، کیا ہمیں ان پر اعتماد ہے؟ انتظامیہ اس جنگ پر کتنا پیسہ خرچ کرنے کو تیار ہے؟ لیبیا کی تعمیرِ نو کے لیے امریکہ کس قسم کی ذمہ داری اٹھائے گا؟“
ان سوالات کا جواب دینے کے لیے صرف محکمہ خارجہ کے ڈپٹی سیکرٹری جیمز اسٹینبرگ موجود تھے جنھوں نے کہا کہ لیبیا کی مہم میں نیٹو کا عزم مسلسل مضبوط ہے۔انھوں نے کہا کہ اوباما انتظامیہ نے لیبیا میں امریکی اخراجات کے بارے میں کانگریس کے ساتھ باقاعدگی سے مشورہ کیا ہے۔ اس میں دو کروڑ پچاس لاکھ ڈالر کی وہ امداد بھی شامل ہے جو ملک کی عبوری نیشنل کونسل کو غیر مہلک مقاصد کے لیے دی گئی ہے۔
اسٹینبرگ نے اس بات پر زور دیا کہ لیبیا میں صحیح معنوں میں پیش رفت ہو رہی ہے۔ ”قذافی اور ان کے گرد جو لوگ جمع ہیں ، ان کے لیے واضح پیغام یہ ہے کہ اب حالات پہلے کی طرح نہیں ہوں گے۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ذریعے انہیں نو فلائی زون، اسلحہ کی ترسیل پر پابندی، اثاثوں کے منجمد ہونے، اور سفر پر پابندیوں کا سامنا ہے۔ لیبیا کی نیشنل آئل کارپوریشن اور سینٹرل بنک کو بلیک لسٹ کر دیا گیا ہے۔ بین الاقوامی برادری میں مکمل اتفاق رائے ہے کہ کوئی ایسا حل موجود نہیں ہے جس میں مستقبل میں قذافی بر سرِ اقتدار ہوں۔“
اسٹینبرگ نے ان سوالات کے جواب بھی دیے کہ امریکہ اور نیٹو کے فوجی وسائل ایک بہت کم آبادی والے ملک پر صرف کیے جا رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ لیبیا میں جو کچھ ہو گا ، اس کے پورے مشرقِ وسطیٰ پر گہرے اثرات پڑیں گے۔”قذافی کی اپنے ہی لوگوں کو کچلنے اور ان پر حملے کرنے کی کوششوں کے تیونس اور مصر میں آنے والی تبدیلیوں پر گہرے اثرات ہو سکتے ہیں۔ امریکہ کے لیے اور ہمارے طویل مدت کے مفادات کے لیے یہ چیز بہت اہم ہے۔“
ریاست ٹینیسی کے ریپبلیکن سینیٹر باب کروکر نے اس پریشانی کا اظہار کیا کہ اوباما انتظامیہ نے معمر قذافی کے اقتدار چھوڑنے کے بعد امریکی امداد کے بارے میں لیبیا کی عبوری نیشنل کونسل سے کس قسم کے وعدے کیے ہیں۔ اسٹینبرگ نے جواب دیا کہ لیبیا وسیع قدرتی وسائل کا مالک ہے اور امکان یہی ہے کہ قذافی کے جانے کے بعد، یہ ملک اپنے وسائل سے بحالی اور تعمیر نو کا کام کر سکتا ہے۔
اپنے ریپبلیکن ساتھیوں کے مقابلے میں کمیٹی کے چیئرمین ، ڈیموکریٹک سینیٹر جان کیری کا رویہ زیادہ امید افزا تھا۔ انھوں نے کہا”لیبیا کے لوگوں کو بہتر مستقبل کا موقع ملا ہے اور میرے خیال میں بن غازی میں بہت بڑی تباہی ٹل گئی ہے۔ عراق یا افغانستان کے بر عکس، ہم نے لیبیا میں جو کچھ حاصل کیا ہے وہ وسیع بین الاقوامی حمایت سے حاصل کیا ہے، بلکہ بیشتر بوجھ نیٹو کے ارکان نے اٹھایا ہے۔“
لیکن کیری نے مزید کہا کہ بعض اوقات جنگ میں گھرے ہوئے لیڈروں کو بے دخل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ سربیا کے سابق لیڈر Slobodan Milosevic نے سابق یوگو سلاویہ میں 1990 کی دہائی میں نیٹو کی مسلسل بمباری کے باوجود اقتدار نہیں چھوڑا تھا۔